اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 جون 2025ء) پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد کئی دنوں تک پاکستانی سوشل میڈیا پر پاکستان ایئر فورس کے اورنگزیب احمد ٹرینڈ کرتے رہے۔ انہیں قومی کرش کا خطاب دے دیا۔ ہر پلیٹ فارم پر انہی کا نام اور انہی کی تعریفیں نظر آ رہی تھیں۔ غورطلب بات یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر تعریفیں خواتین کی جانب سے کی جا رہی تھیں۔
ماضی میں بھی انٹرنیٹ پر مختلف شخصیات کے حوالے سے پاکستانی معاشرے میں پسندیدگی کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ تاہم، وہ اظہار مردوں کی طرف سے خواتین کے لیے ہوتا تھا۔ اس کی ایک مثال گلوکارہ مومنہ مستحسن ہیں۔ جب ان کا راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا ریلیز ہوا تو لوگوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔
(جاری ہے)
اس کے بعد ان کا نام آئے دن ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ٹرینڈ کر رہا ہوتا تھا۔
ایک دن کسی نے ان کی منگنی کی افواہ پھیلا دی۔ پھر وہی ہنگامہ مچا کہ انہیں خود ٹویٹ کر کے اس افواہ کی تردید کرنا پڑی۔اسی طرح تُرک اداکارہ اسرا بلجیک کو ڈرامہ سیریز ارطغرل غازی میں حلیمہ سلطان کے کردار میں لوگوں نے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان میں ان کے بھی بہت سے قدردان بن گئے تھے۔ ان مداحوں نے جب اسرا کی انسٹاگرام پر موجود تصاویر دیکھیں تو خاصے دکھی ہوئے اور ہر پوسٹ پر انہیں اصل زندگی میں بھی حلیمہ سلطان بننے کی ترغیب دینے لگے۔
بالآخر اسرا کو مجبوراً اپنے انسٹاگرام پر کمنٹس بند کرنا پڑے۔پاکستانی خواتین کی جانب سے کسی مرد کے لیے اس سطح کی پذیرائی کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔ وہ عموماً کم گو، شرمیلی اور محتاط سمجھی جاتی ہیں۔ تاہم سابق کرکٹر اور وزیرِ اعظم عمران خان کی بہت سے خواتین مداح تھیں۔ اسی طرح ”چاکلیٹی ہیرو" کے لقب سے مشہور پاکستان کے مایہ ناز اداکار وحید مراد کے لیے بھی خواتین میں ایک الگ ہی جوش و خروش پایا جاتا تھا۔
لیکن اتنی بڑی سطح پر ایک درمیانی عمر کے مرد کے لیے خواتین کے جذبات کے اس طرح کے اظہار کی مثال شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملی ہو۔پاکستان جیسے معاشروں میں لڑکیوں کو بچپن سے ہی اپنے جذبات اور احساسات چھپا کر رکھنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ ان کا اونچی آواز میں بولنا، ہنسنا یا اپنے انداز کی وجہ سے دوسروں کی نظروں میں آنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
بہت سی لڑکیاں اور خواتین صرف پسند کی شادی کی خواہش پر قتل کی جا چکی ہیں۔ کئی علاقوں اور خاندانوں میں آج بھی خواتین کا اپنے شوہروں کو نام لے کر پکارنا مناسب نہیں سمجھا جاتا۔تو کیا اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی ثقافت میں کوئی بڑا بدلاؤ آ چکا ہے؟
کہیں نہ کہیں تبدیلی ضرور آئی ہے لیکن اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ ایک بڑا فرق ٹیکنالوجی کا ہے۔
آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے دنیا کو آپس میں جوڑ دیا ہے۔ دنیا کے ایک کونے کی خبر چند سیکنڈ میں دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے جس کی وجہ سے ممالک، اقوام اور ثقافتوں کے درمیان سرحدیں مدھم ہوتی جا رہی ہیں۔ ہماری موجودہ نسل اس دنیا میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی ہے۔ وہ ایک عالمی ثقافت کی پیروی کرتی ہے جو انہیں اپنے جذبات کو دبانا نہیں بلکہ ان کا اظہار کرنا سکھاتی ہے۔سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ”نیٹ ورکڈ پبلکس" کے طور پر کام کرتے ہیں۔ یہ ایسے نیٹ ورکس ہوتے ہیں جہاں لوگ دیگر ہم خیال افراد کے ساتھ نئے تعلقات قائم کرسکتے ہیں۔ یہ پلیٹ فارمز انہیں اپنی شناخت خود تخلیق کرنے کی طاقت دیتے ہیں اور وہ اپنی اس شناخت کو اپنی مرضی کے مطابق دوسروں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہاں وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں، اختلافِ رائے کرتے ہیں اور وہ سب کچھ کہتے ہیں جو حقیقی دنیا میں کہنے کی گنجائش کم ہوتی ہے۔
یہ پلیٹ فارمز اپنے مختلف فیچرز جیسے شناخت کو چھپانے کی سہولت، پرائیویسی سیٹنگز اور مرضی کے افراد کے ساتھ رابطہ بنانے کی صلاحیت کی مدد سے صارفین کو وہاں ایک قسم کی ورچوئل آزادی فراہم کرتے ہیں۔کچھ پلیٹ فارمز کی ساخت ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہاں انسان کے لیے اپنے اندر کے جذبات کو باہر نکالنا تقریباً ناگزیر ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایکس پر لوگ چند الفاظ میں اپنے احساسات بیان کرتے ہیں۔
وہ دن میں متعدد بار ایپ کھولتے ہیں اور اپنے دل و دماغ میں آنے والے جذبات کو وہاں پوسٹ کرتے ہیں۔ چند سیکنڈز میں وہ پوسٹ یا تو وائرل ہو جاتی ہے یا دیگر پوسٹس کے انبار تلے دب جاتی ہے۔ پہلی صورت میں صارف کو مختصر دورانیے کی شہرت ملتی ہے جو ان کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ان عوامل سے متاثر ہو کر صارفین نہ صرف گفتگو میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
جن موضوعات پر اچانک زیادہ بات شروع ہو جائے وہ ٹرینڈز بن جاتے ہیں۔ دوسروں سے پیچھے رہ جانے کے خوف یا ”ڈیجیٹل خاموشی" کے احساس سے بچنے کے لیے بھی لوگ ان مباحثوں میں لازمی شرکت کرتے ہیں۔ تاہم، یہ رجحانات عارضی ہوتے ہیں۔ جیسے ہی نیا پن ختم ہوتا ہے، صارفین کی توجہ کسی اور جانب مڑ جاتی ہے یا پلیٹ فارم کے الگورتھمز کسی اور مواد کو ترجیح دینے لگتے ہیں، پھر ٹرینڈ کی رفتار سست پڑ جاتی ہے اور وہ مدھم ہوتے ہوتے ختم ہو جاتا ہے جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔کچھ عرصہ پہلے مسرت نذیر کا ”آہستہ آہستہ" گیت وائرل ہوا تھا۔ اور ایسا وائرل ہوا تھا کہ ہر ریل میں وہی سنائی دیتا تھا۔ پھر غائب ہوگیا۔ عیدالفطر سے پہلے ”فرشی شلوار" کا ٹرینڈ آیا تھا مگر وہ بھی کچھ دنوں میں غائب ہو گیا۔ اسی طرح اورنگزیب احمد کا ٹرینڈ بھی اچانک منظر پر آیا اور اچانک ہی چلا گیا۔
اس ٹرینڈ کے بعد کچھ افراد نے خواتین کو شرم دلانے کی بھی کوشش کی حالانکہ یہ رویہ نہ صرف ان کی طرف تنقیدی شعور کی کمی کی عکاسی کر رہا تھا بلکہ یہ بھی بتا رہا تھا کہ وہ ہمارے معاشرے میں آنے والی بتدریج تبدیلی کو سمجھ نہیں پا رہے۔
اورنگزیب احمد کے ٹرینڈ پر ہونے والی گفتگو نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہماری نوجوان نسل اب خود کو چپ کرانے والے اصولوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ نئی دنیا کے تقاضوں کے ساتھ چل رہی ہے جہاں اظہار جرم نہیں بلکہ شناخت ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ، یہ نسل ایسی دنیا میں جی رہی ہے جہاں کچھ بھی مستقل یا طویل المدت نہیں ہے۔ ان کی دنیا میں سب کچھ ایک مختصر مدت کے لیے ہوتا ہے اور وہ مدت دن بہ دن مزید مختصر ہوتی جا رہی ہے۔
ایسے میں ان سے مستقل مزاجی یا یکسانیت کی امید شاید غیر حقیقی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کے اظہار کو سمجھیں، ان کے انداز کو سنیں اور ان کے ساتھ چلنے کا ہنر سیکھیں کیونکہ یہ نسل نہ صرف سوال اٹھا رہی ہے بلکہ اپنے لیے راستہ بھی خود بنا رہی ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔