اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جون 2025ء) امریکہ کی جانب سے ایران کے جوہری مقامات پر بمباری کے بعد اسرائیل اور ایران جنگ میں تیزی سے اضافہ ہوا اور چین نے اس اقدام کو واشنگٹن کی عالمی ساکھ کے لیے ایک دھچکا قرار دیا۔
ٹرمپ نے جنگ بندی سے پہلے ایران کے جوہری پروگرام کے اہم مقامات پر امریکی حملے کیے، جس کے جواب میں، تہران نے قطر میں امریکی فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔
تاہم چین نے اس پیش رفت پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔بیجنگ کی وزارت خارجہ کے ترجمان گو جیاکون نے ایران پر امریکی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے تنقید کی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے اساسی معاہدے کے تحت اپنے دفاع کے لیے یا پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر ممالک کے درمیان طاقت کے استعمال پر پابندی ہے۔
(جاری ہے)
گو جیاکون نے کہا کہ بیجنگ "مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔"
امریکہ سے تجارتی کشیدگی کے باعث چینی برآمدات متاثر
اس سے قبل اقوام متحدہ میں چین کے سفیر فو کانگ کی جانب سے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا گیا تھا، جن کا کہنا تھا کہ بحیثیت ایک ملک اور کسی بھی بین الاقوامی مذاکرات میں شریک ہونے کی حیثیت سے امریکہ کی ساکھ کو "نقصان" پہنچا ہے۔
بیجنگ کے لیے داؤ پر کیا ہے؟
چین کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں استحکام کا مطالبہ ان اقتصادی خدشات کے درمیان آیا ہے کہ ایران آبنائے ہرمز کو بند کر سکتا ہے، جس سے تیل کی قیمتیں غیر مستحکم ہو جائیں گی۔
ٹرمپ اور شی میں فون کال کے بعد تجارتی مذاکرات آگے بڑھانے پر اتفاق
آبنائے ہرمز عمان اور ایران کے درمیان ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے، جو خلیج فارس کو خلیج عمان اور بحیرہ عرب سے ملاتی ہے اور تیل کی نقل و حمل کے لیے ایک اہم گیٹ وے ہے۔
واشنگٹن نے چین پر زور دیا ہے کہ وہ تہران کو اس اہم آبی گزرگاہ کو بند کرنے سے باز رکھے۔
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات جا ایان چونگ کا کہنا ہے کہ "تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ یقیناً (چین کی) معیشت پر دباؤ ڈالیں گے۔ اس سے "افراط زر کے مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "بیجنگ کے پاس یقیناً اس بات کو یقینی بنانے کی وجہ ہے کہ کشیدگی قابو سے باہر نہ ہو۔
لیکن آیا وہ ایران کو مکمل طور پر روک سکتا ہے یا نہیں یہ ایک الگ کہانی ہے۔"شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟
چین ایران کا کلیدی اقتصادی حمایتی ہے، خاص طور پر مغربی پابندیوں اور تہران کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کے درمیان، جو اس کے جوہری پروگرام اور انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے ہیں۔
ایران چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں ایک اہم شراکت دار ہے۔
یہ ایک بڑا انفراسٹرکچر منصوبہ ہے، جس کا مقصد چینی تجارت اور درجنوں ممالک میں اثر و رسوخ کو مربوط کرنا ہے۔اٹلانٹک کونسل کے گلوبل چائنا ہب کے ایک رکن وین ٹی سنگ کا کہنا ہے کہ "ایک کمزور ایران، جو کہ شاید فوجی طور پر روایتی جنگ یا امریکی فوجی مداخلت کے نتیجے میں خانہ جنگی سے قریب تر ہے، تہران کو مشرق وسطیٰ میں چین کی رسائی کے لیے بہت ہی کم موثر پارٹنر بنا دے گا۔
"چین نے ہانگ کانگ میں عالمی ثالثی ادارہ قائم کر دیا
چین کے لیے سفارتی سرمایہ حاصل کرنے کا موقع
سنگ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی فوجی حملے کے تناظر میں چین کو مزید سفارتی خیر سگالی حاصل کرنے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا، "جب تک امریکہ کی جانب سے مستقبل میں مزید فوجی حملوں کا امکان ختم نہیں ہوتا، یہ سفارتی اثر برقرار رہے گا۔
""چین نے طویل عرصے سے امریکہ کو عدم استحکام پیدا کرنے والی قوت کے طور پر، جبکہ خود کو امن اور استحکام کے لیے ایک ذمہ دار وکیل کے طور پر پیش کیا ہے۔
ٹرمپ کی ’گولڈن ڈوم‘ میزائل شیلڈ کیا، اس پر تنقید کیوں؟
چونگ کا کہنا ہے کہ (چین) کے پاس، "اب امریکہ کے بارے میں یہ بات کرنے کی زیادہ صلاحیت ہو گی کہ وہ ایک ممکنہ خطرہ ہے، وہ اس بیانیے کو گلوبل ساؤتھ میں آگے بڑھانے میں خاص طور پر سرگرم بھی رہا ہے۔
"سن 2023 میں، چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سات سال کے منقطع تعلقات کے بعد سفارتی تعلقات بحال کرنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے کی ثالثی کی تھی۔
لیکن موجودہ بحران کے دوران بیجنگ کی تہران کی پشت پناہی زیادہ تر بیان بازی پر مبنی رہی ہے، جس میں اس کے ثالثی کا کردار اداکرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے۔
چونگ نے کہا، "بیجنگ بااثر ہے، لیکن جس طرح امریکہ اسرائیل کو کنٹرول نہیں کر سکتا، اسی طرح بیجنگ (ایران کو روک نہیں سکتا)"۔
اگر واشنگٹن ایشیا سے توجہ ہٹاتا ہے تو بیجنگ کو فائدہ ہو گا
ادھر امریکہ ہند-بحرالکاہل پر کم توجہ کے ساتھ ہی وسائل بھی کم صرف کر رہا ہے، چین ممکنہ طور پر ایشیا میں چین کی بڑھتی ہوئی اپنی فوجی موجودگی پر بین الاقوامی دباؤ کو دور کر سکتا ہے۔
ہنوئی میں امریکی سفارت خانے نے کہا کہ اس ماہ کے اوائل میں ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز جو اصل میں ویتنام کی ایک بندرگاہ پر پہنچنے والا تھا، اسے ایک "ہنگامی آپریشنل ضرورت" کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی طرف روانہ کیا گیا۔
چونگ نے کہا کہ طیارہ بردار جہاز کے اس دورے سے ایشیا میں سلامتی اور استحکام کے لیے امریکی عزم کو ظاہر کرنا تھا۔
امریکہ اور چین دو طرفہ محصولات کی نوے روزہ معطلی پر متفق
چونگ نے تائیوان کی طرف چین کے نقطہ نظر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، "اگر مشرق وسطیٰ کی طرف امریکی توجہ طویل عرصے تک برقرار رہی تو، بیجنگ (اپنی حکمت عملی) کا دوبارہ تخمینہ لگا سکتا ہے۔
"تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جسے چین اپنا علاقہ مانتا ہے اور بیجنگ نے اس کے "دوبارہ اتحاد" کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کے امکان کو مسترد نہیں کیا ہے۔
چونگ نے کہا کہ امریکہ اب مشرق وسطیٰ میں گہرائی سے الجھا ہوا ہے، اس لیے جاپان سمیت جنوبی کوریا، فلپائن اور آسٹریلیا جیسے اس کے علاقائی اتحادیوں کو "خود ہی بہت کچھ کرنا پڑے گا اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سخت محنت کرنا پڑے گی۔"
اس مرحلے پر یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ایران پر امریکی حملہ ایک الگ تھلگ واقعہ ہے اور اس کے بعد واشنگٹن ایشیا پر توجہ مرکوز کر سکتا ہے، یا پھر یہ قدم مشرق وسطیٰ کو ترجیح دینے کی جانب ایک وسیع محور کا اشارہ ہے۔
ص ز/ ج ا (یوچین لی تائی پے سے)