بھارت کے بعد پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں سے محروم بچوں کی تعداد سب سے زیادہ

حالیہ دہائیوں میں چھوٹے بچوں کی زندگی بچانے والی ویکسی نیشن جمود کا شکار ہو گئی،رپورٹ

بدھ 25 جون 2025 21:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جون2025ء)ایک نئے تحقیقی مطالعے (اسٹڈی)میں بتایا گیا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں چھوٹے بچوں کی زندگی بچانے والی ویکسی نیشن ( حفاظتی ٹیکے )جمود کا شکار ہو گئی ہے، جس سے لاکھوں بچے جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔برطانوی میڈیکل جریدے دی لانسیٹ کے ایک نئے تحقیقی مطالعے کے مطابق حالیہ دہائیوں میں بچوں کی ویکسی نیشن جمود کا شکار ہو گئی ہے، جس سے لاکھوں بچے جان لیوا بیماریوں کے خطرے سے دوچار ہیں، مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد پاکستان میں ایسے بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جنہیں کوئی حفاظتی ٹیکہ نہیں لگا، ان بچوں کو طبی اصطلاح میں زیرو ڈوز بچے کہا جاتا ہے۔

The Lancet ایک 200 سال پرانا ہفتہ وار طبی جریدہ ہے جو برطانیہ سے شائع ہوتا ہے، اپنے آغاز کے بعد سے، اس جریدے نے 20 سے زائد خصوصی جرائد کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور طب اور صحت کی دیکھ بھال کے مختلف اہم مسائل پر کئی عالمی Lancet Commissions تشکیل دیے ہیں۔

(جاری ہے)

ایک روز قبل جاری ہونے والی ایک پریس ریلیز میں جریدے نے بتایا کہ 1974 میں اپنے قیام کے بعد سے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے حفاظتی ٹیکہ جات کے توسیعی پروگرام ( ای پی آئی) نے غیر معمولی پیش رفت حاصل کی ہے، جس کے ذریعے معمول کی ویکسی نیشن کے ذریعے دنیا بھر میں اندازا 154 ملین بچوں کی اموات کو روکا گیا ہے تاہم پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایک بڑے نئے تجزیے کے مطابق، گزشتہ 50 سال کی پیش رفت کے باوجود پچھلی دو دہائیاں بچوں کے حفاظتی ٹیکہ جات کی شرح میں تعطل اور ویکسین کی کوریج میں وسیع فرق کے حوالے سے بھی نمایاں رہی ہیں۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ان چیلنجوں کو کووڈ-19 وبائی مرض نے مزید بڑھا دیا ہے، جس سے لاکھوں بچے قابلِ علاج بیماریوں اور موت کا شکار ہو گئے۔اس مطالعے کے مصنفین نے کہا کہ تازہ ترین تخمینوں کو واضح انتباہ کے طور پر لیا جانا چاہیے کہ 2030 کے عالمی حفاظتی ٹیکوں کے اہداف بہتر تبدیلیوں کے بغیر حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔2019میں عالمی ادارہ صحت نے امیونائزیشن ایجنڈا 2030 کے ذریعے عالمی سطح پر ویکسین کوریج کو بہتر بنانے کے لیے جرات مندانہ اہداف مقرر کیے تھے۔

2023کے اعداد و شمار کے مطابق جس پر یہ تجزیہ مبنی ہے، دنیا کے 15.7 ملین غیر ویکسین شدہ بچوں میں سے نصف سے زیادہ صرف آٹھ ممالک میں رہتے تھے، جن میں 53 فیصد سب صحارا افریقہ میں اور 13 فیصد جنوبی ایشیا میں تھے۔تحقیقی مطالعے کے سینئر مصنف ڈاکٹر جوناتھن موسر، جو یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایویلویشن (آئی ایچ ایم ای ) سے وابستہ ہیں، کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ گزشتہ 50 سال کی شاندار کوششوں کے باوجود، عالمی سطح پر پیش رفت نہیں ہو رہی اور بڑی تعداد میں بچے اب بھی کم ویکسین شدہ یا غیر ویکسین شدہ ہیں۔

جریدے نے نشاندہی کی کہ کووڈ-19 وبائی مرض نے چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے، 2020 سے ای پی آئی کی تجویز کردہ ویکسین کی عالمی کوریج کی شرحوں میں تیزی سے کمی آئی، جس کے نتیجے میں 2020 اور 2023 کے درمیان اندازا 15.6 ملین بچے خناق، تشنج اور کالی کھانسی ویکسین کی مکمل تین خوراکوں یا خسرہ کی ویکسین سے محروم رہے۔اسی طرح 15.9 ملین بچوں کو پولیو کی کوئی ویکسین نہیں ملی اور 9.18 ملین بچے تپ دق کی ویکسین سے محروم رہے۔

تحقیقی مطالعے میں کہا گیا کہ کووڈ-19 وبائی مرض نے عالمی سطح پر غیر ویکسین شدہ زیرو ڈوز بچوں کی تعداد کو کرنے کیلئے کی جانے والی کوششوں کو بھی ضائع کر دیا تھا، اور زیرو ڈوز بچوں کی تعداد 18.6 ملین پر پہنچنے کے بعد 2023 میں کم ہوکر 15.7 ملین پر آ گئی تھی۔تحقیقی مطالعے میں اندازہ لگایا گیا کہ کووڈ وبائی مرض کے چار سالوں (2020-2023) کے دوران حفاظتی ٹیکوں کی خدمات میں خلل واقع ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر تقریبا 12.8 ملین اضافی غیر ویکسین شدہ بچے پیدا ہوئے۔

تحقیقی مطالعے میں زور دیا گیا کہ 2019 کی سطح کے مقابلے میں زیرو ڈوز بچوں کی تعداد کو نصف کرنے کے 2030 کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے تیز رفتار پیش رفت ضروری ہو گی، 204 ممالک اور علاقوں میں سے صرف 18 ممالک نے 2023 تک اس ہدف کو حاصل کیا۔تحقیقی مطالعے میں کہا گیا کہ آبادی کا دبا پہلے سے ہی دبا کا شکار صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر ایک دہرا بوجھ ڈالے گا جو ویکسین کے ہدف والی آبادی میں نمایاں اضافے کو سنبھالنے کے لیے اچھی طرح سے تیار نہیں ہیں۔

مطالعے کے مصنفین نے ویکسین کے بارے میں غلط معلومات اور ہچکچاہٹ سے نمٹنے کے لیے مزید مربوط کوششوں کا مطالبہ کیا تاکہ ویکسین کی قبولیت اور استعمال میں اضافہ ہو۔مطالعے میں پایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ایسے بچے ہیں جنہیں ویکسین کی کوئی خوراک نہیں ملی، اس زمرے میں چار لاکھ 19 ہزار بچے شامل ہیں۔پریس ریلیز میں کہا گیا کہ پاکستان اور افغانستان میں وائلڈ پولیو کے کیسز کی بڑھتی ہوئی تعداد رپورٹ ہوئی ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان پولیو پروگرام نے نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر میں اس مفلوج کر دینے والی بیماری کے خلاف سال کی تیسری مہم کا آغاز کیا تھا۔پاکستان اور افغانستان دنیا کے آخری دو ممالک جہاں اب بھی پولیو کا مرض موجود ہے، وائرس کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں کے باوجود، سلامتی کے مسائل، ویکسین پلانے میں ہچکچاہٹ، اور غلط معلومات جیسے چیلنجوں نے اس سلسلے میں پیش رفت کو سست کر دیا ہے۔اپریل میں، یونیسیف نے ویکیسن الائنس گاوی کے تعاون سے معمول کی ویکسی نیشن بہتر بنانے کے لیے فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایمونائزیشن کو 31 ریفریجریٹڈ ٹرک فراہم کیے تھے۔