ْقبائلیوں کو امن دیا جائے ، صوبائی ، وفاقی ٹیکسز کو فی الفور ختم کیا جائے،فاٹا لویہ جرگہ

قبائل کو اعتماد میں لئے بغیر مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قابل قبول نہیں، عمائدین کی پریس کانفرنس

پیر 30 جون 2025 20:25

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جون2025ء)فاٹا لویہ جرگہ کے عمائدین نے فاٹا انضمام کو مسترد کرتے ہوئے فاٹا کی خصوصی حیثیت میں بحالی اور اس بارے میں فاٹا کے لوگوں کی رائے معلوم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلیوں کو امن دیا جائے ، صوبائی یا وفاقی ٹیکسز کو فی الفور ختم کیا جائے،ہمارے گھروں، ہسپتالوں، حجروں، مسجدوں مدرسوں، سکولوں اور سڑکوں کی تعمیر نو کی جائے فاٹا کے لوگوں کو روزگار دیا جائے کاروبار بحال کیا جائے،پانچ ہزار سال سے منرل اینڈ مائنز قبائل کی ملکیت ہے اس میںوفاقی و صوبائی حکومت کو فریق نہیں مانتے، قبائل کو اعتماد میں لئے بغیر مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قابل قبول نہیں، سپریم کورٹ آف پاکستان ہمای انضمام مخالف آئینی پٹیشن جو 2018 سے زیر سماعت ہے جلد اور فوری طور پر سنے ڈیڑھ کروڑ قبائل کو مزید تاخیر کئے بغیر انصاف مہیا کیا جائے۔

(جاری ہے)

فاٹا لویہ جرگہ کے عمائدین نے ان خیالات کا اظہار جرگہ کے صدر بسم اللہ خان قبائلی کی سربراہی میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا،عمائدین کا مزید کہنا تھا کہ فاٹا کے تمام 7ایجنسیوں اور 6 ایف آرز کے تمام قبائل کے عمائدین پر مشتمل غیر سیاسی تنظیم ہے فاٹا لویہ جرگہ کے عمائدین فاٹا صوبہ سرحد بالجبر انضمام پہلے روز سے ہی مسترد کر چکے ہیں، فاٹا صوبہ سرحد میں بالجبر انضمام جوکہ قبائل کی رائے معلوم کیے بغیر اور آئین پاکستان کی شق 247 کی ذیلی شق 6 کے تحت فاٹا کی حیثیت کی تبدیلی کیلئے واضح طریقہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قبائلیوں پر تھوپا گیا انضمام بالجبر کے خاتمے اور فاٹا کی خصوصیت کی بحالی اور اس بارے میں فاٹا کے لوگوں کی رائے معلوم کی جائے،انہوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں وفاقی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے صوبہ میں جرگہ بحالی اور سول انتظامیہ کو تقویت دینے کے لئے کمیٹی بنائی ہے کمیٹی میں قبائل کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ کمیٹی سارے صوبے کیلئے بنائی گئی ہے، کمیٹی ہماری خواہشات کے مطابق ہمارے مطالبات اور مسائل حل نہیں کرسکتی بلکہ اصل مسئلے سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہیلہذا اس کمیٹی کو مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ جہاں علاقے کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے تاکہ اصل مسائل حل ہوسکیں، 5ہزار سال سے منرل اینڈ مائنز قبائل کی ملکیت ہے جس میں وفاقی و صوبائی حکومت کو فریق نہیں مانتے، فاٹا انضمام کے وقت وعدوں جن میں این ایف سی 3فیصد، ایوارڈ 110ارب سالانہ ترقیاتی فنڈ 10سال کیلئے، 30ہزار لیویز بھرتی کرنا اور فاٹا کو دس سال کیلئے ٹیکس فری زون رکھناشامل تھا ان میں سے ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا فاٹا کے 95فیصد لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں،فاٹا میں جو انفراسٹرکچر تباہی ہوا ہے ہمارے گھروں، ہسپتالوں، حجروں، مسجدوں مدرسوں، سکولوں اور سڑکوں کی تعمیر نو کی جائے فاٹا کے لوگوں کو روزگار دیا جائے کاروبار بحال کیا جائے جس کے بعد ہم پر ٹیکس لگایا جائے، فاٹا کی عوام کو زبردستی جرائم اور دہشتگردی کی طرف دھکیلا جاتا ہے،پچھلی دو دہائیوں میں بدامنی کی وجہ سے وہاں زندہ رہنا مشکل ہے، قبائلیوں کو امن دیا جائے ،پچھلے 5ہزار سال سے منرل اینڈ مائنز قبائل کی ملکیت ہے، قبائل کو اپنے حق کا تحفظ کرنا آتا ہے لہذا ہمارے حق سے ہمیں محروم نہ کیا جائے، قبائلیوں کے پاس ایک پروگرام ہے جس کے تحت قبائل ملٹی نیشنل کمپنیوں اور حکومت کے ساتھ مل کر ان معدنیات کو قبائل اور پھر سارے ملک کے مفاد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں اس پروگرام کو وقت آنے پر متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کریں گے، قبائل کو اعتماد میں لیے بغیر مائنز اینڈ منرلز ایکٹ قابل قبول نہیں لہذا حکومت ایسے اقدام سے گریز کرے جس سے قبائل کو دیوار سے لگایا جائے ورنہ اس کے نتائج پورے خطے کیلئے بھیانک ا ور تباہ کن ہونگے، انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ انضمام مخالف آئینی پٹیشن جو 2018 سے زیر سماعت ہیکوجلد اور فوری طور پر سنے اور ڈیڑھ کروڑ قبائل کو مزید تاخیر کئے بغیر انصاف مہیا کیا جائے۔