غزہ ہیومینیٹیرین نے فلسطینیوں کے قیام کیلئے پٹی کے اندر اور باہر علاقے تجویز دیدی

مئی میںامریکی اخبارنے غیر جنگجو ئوفلسطینیوں کے لیے کمپلیکس بنانے کے منصوبوں کی نشاندہی کی تھی،رپورٹ

منگل 8 جولائی 2025 10:35

�ندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جولائی2025ء)برطانوی خبرایجنسی کو ملنے والی ایک تجویز کے مطابق امریکہ کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن نے غزہ کے اندر اور شاید باہر بھی انسانی منتقلی کے علاقوں کے نام سے کیمپ قائم کرنے کی پیشکش کردی ہے، اس پیشکش کا مقصد غزہ کے فلسطینیوں کو پناہ دینا ہے۔ یہ پیشکش حماس کے آبادی پر کنٹرول کو ختم کرنے کے اس کے ویژن کی بھی عکاسی کر رہی ہے۔

باخبر ذرائع نے بتایا کہ یہ منصوبہ، جس پر تقریبا دو ارب ڈالر لاگت آئے گی اور یہ 11 فروری کے بعد کسی وقت غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے لیے تیار کیا گیا تھا، پہلے ہی ٹرمپ انتظامیہ کو پیش کیا جا چکا ہے اور حال ہی میں وائٹ ہاس میں اس پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ رائٹرز کو ملنے والے منصوبے کے مطابق ان کیمپوں کو ایسے وسیع طور پر پھیلے رضاکارانہ مقامات کے طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں غزہ کے رہائشی عارضی طور پر رہ سکتے اور انتہا پسندی سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

اس طرح وہ دوبارہ معاشرے میں ضم ہو سکتے ہیں اور اگر چاہیں تو دوبارہ آبادکاری کی تیاری کر سکتے ہیں۔یاد رہے امریکی اخبار امریکی اخبارنے مئی میں کہا تھا کہ غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے پاس غیر جنگجو فلسطینیوں کے لیے رہائشی کمپلیکس بنانے کے منصوبے ہیں۔ رائٹرز نے پریزنٹیشن سلائیڈز کا ایک مجموعہ دیکھا جس میں انسانی منتقلی کے علاقوں کی تفصیلات شامل ہیں۔

ان سلائیڈز میں منصوبے کے نفاذ اور اس کی لاگت کا بھی تذکرہ ہے۔اس منصوبے میں ان وسیع سہولیات کو مقامی آبادی کا اعتماد حاصل کرنی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ ویژن کے نفاذ کو آسان بنانے کے لیے استعمال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ رائٹرز آزادانہ طور پر اس منصوبے کی موجودہ حیثیت کا تعین نہیں کر سکا اور نہ ہی یہ جان سکا ہے کہ اسے منصوبے کو کس نے پیش کیا اور آیا یہ ابھی بھی زیر غور ہے یا نہیں۔

غزہ ہیومینیٹیرین فائونڈیشن نے رائٹرز کے سوالات کے جواب میں ایسے کسی منصوبے کو پیش کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ یہ سلائیڈز غزہ ہیومینیٹیرین فائونڈیشن کی دستاویزات نہیں ہیں۔ فائونڈیشن نے مزید کہا کہ اس نے غزہ میں محفوظ طریقے سے امداد پہنچانے کے لیے کئی نظریاتی آپشنز کا مطالعہ کیا ہے لیکن ان میں انسانی منتقلی کے علاقوں کو نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

فانڈیشن نے مزید کہا کہ اس کے بجائے وہ صرف اور صرف پٹی میں غذائی اشیا کی تقسیم پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے لیے کام کرنے والی ایک منافع بخش ٹھیکیدار کمپنی ایس آر ایس کے ایک ترجمان نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم نے غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے ساتھ انسانی منتقلی کے علاقوں کے بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی اور ہمارا اگلا مرحلہ مزید لوگوں کو کھانا کھلانا ہے۔

اس کے برعکس کوئی بھی اشارہ بے بنیاد ہے اور ہماری کارروائیوں کے دائرہ کار کو مسخ کر رہا ہے۔ یاد رہے دستاویز کے سرورق پر غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کا نام اور کئی پریزنٹیشن سلائیڈز پر ایس آر ایس کا نام شامل تھا۔ٹرمپ نے پہلی بار 4 فروری کو عوامی طور پر کہا تھا کہ امریکہ کو تباہ کردی گئی غزہ کی پٹی پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے اور 2.3 ملین فلسطینیوں کو دوسرے مقامات پر دوبارہ آباد کرنے کے بعد اس پٹی کو مشرق وسطی کا رویرا بنا دینا چاہیے۔

ان کے بیانات نے بہت سے فلسطینیوں اور انسانی ہمدردی کی تنظیموں میں غم و غصہ پیدا کردیا تھا اور اس کے بعد غزہ کی پٹی سے آبادی کی جبری نقل مکانی کے خدشات بڑھ گئے تھے۔ کئی انسانی ہمدردی کے ماہرین نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اگرچہ غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کا منصوبہ زیر غور نہیں ہے، پھر بھی آبادی کے ایک بڑے حصے کو کیمپوں میں منتقل کرنے کا خیال ان خدشات کو مزید بڑھائے گا۔

وائٹ ہائوس نے برطانوی خبرایجنسی کی تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔ یہ تجویز ایک پریزنٹیشن میں شامل تھی جسے ایک ذریعے کے مطابق اس سال کے شروع میں القدس میں امریکی سفارت خانے کو پیش کیا گیا تھا۔اس حوالے سے امریکی محکمہ خارجہ نے بھی تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔ ایک سینئر انتظامی اہلکار نے کہاکہ ایسا کچھ بھی زیر غور نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے کسی بھی طرح سے کوئی وسائل مختص نہیں کیے جا رہے۔

منصوبے پر کام کرنے والے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے اسے آگے نہیں بڑھایا گیا۔ خبرایجنسی نے پہلے بتایا تھا کہ غزہ فانڈیشن نے فنڈ ریزنگ کے لیے سوئٹزرلینڈ میں ایک بینک اکانٹ کھولنے کی کوشش کی تھی لیکن یو بی ایس اور گولڈمین سیکس دونوں نے اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا تھا۔اسرائیل کے امریکہ میں سفارت خانے نے بھی رائٹرز کی تبصرہ کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام حکومتی میڈیا آفس کے ڈائریکٹر اسماعیل الثوابتہ نے رائٹرز کو غزہ فانڈیشن کی مکمل تردید کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ کوئی امدادی تنظیم نہیں ہے بلکہ اسرائیلی قبضے کا ایک انٹیلی جنس اور سیکورٹی ٹول ہے۔ یہ جھوٹے انسانی ہمدردی کے بہانے کام کر رہا ہے۔برطانوی خبرایجنسی کو حاصل تاریخ کے عدم ذکر والی پریزنٹیشن، جس میں 11 فروری کی تاریخ کی تصاویر شامل ہیں، میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن اس منصوبے کے لیے 2 ارب ڈالر سے زیادہ حاصل کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ غزہ پٹی کے اندر اور شاید باہر وسیع پیمانے پر انسانی منتقلی کے علاقے بنائے جاسکیں، انہیں محفوظ کیا جا سکے اور ان کی نگرانی کی جا سکے تاکہ آبادی غزہ کو غیر مسلح کرنے اور دوبارہ تعمیر کرنے کے آپریشن کے دوران وہاں رہ سکے۔

اس منصوبے سے تعلق رکھنے والے دو ذرائع کے مطابق پریزنٹیشن میں بیان کردہ انسانی منتقلی کے علاقے ایک ایسے عمل کا اگلا مرحلہ ہوں گے جو غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے مئی کے آخر میں پٹی میں غذائی امداد کی تقسیم کے مراکز کھولنے سے شروع ہوا ہے۔غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن اسرائیلی فوج کی ہم آہنگی کے ساتھ کام کر رہی ہے اور غزہ میں غذائی امداد پہنچانے کے لیے نجی امریکی سکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کو استعمال کر رہی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ اور اسرائیل اسے اقوام متحدہ کے زیر قیادت نظام پر غزہ میں انسانی ہمدردی کی کوششوں کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ یو این کے نظام کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ مسلح افراد کو امداد کو حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم حماس ان الزامات کی تردید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ اسرائیل بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

جون میں امریکی محکمہ خارجہ نے غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے لیے 30 ملین ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری دی اور دوسرے ملکوں سے بھی اس کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔اقوام متحدہ نے غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کی کارروائیوں کو فطری طور پر غیر محفوظ قرار دیا ہے اور انسانی ہمدردی کی غیر جانبداری کے قواعد کی خلاف ورزی کہا ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ ہیومینیٹیرین فانڈیشن کے امدادی مراکز پر اور اقوام متحدہ سمیت دیگر امدادی تنظیموں کے زیر انتظام انسانی امداد کے قافلوں کے قریب کم از کم 613 لوگوں کے مارے جانے کو نوٹ کیا ہے۔

پریزنٹیشن کی ایک تصویر جس میں ٹائم لائن کی نشاندہی کی گئی ہے، یہ دکھاتی ہے کہ ایک کیمپ منصوبے کے آغاز کے 90 دن کے اندر تیار ہو جائے گا اور اس میں 2160 افراد کے علاوہ لانڈری، بیت الخلا، حمام اور ایک سکول بھی شامل ہوگا۔ منصوبے پر کام کرنے والے ایک ذریعے نے بتایا کہ یہ پریزنٹیشن ایک منصوبہ بندی کے عمل کا حصہ ہے جو گزشتہ سال شروع ہوا تھا اور اس میں کل 8 کیمپوں کا تصور شامل کیا گیا تھا۔

ان آٹھ کیمپوں میں سے ہر ایک میں لاکھوں فلسطینی رہائش پذیر ہو سکتے ہیں۔اس تجویز میں یہ نہیں بتایا گیا کہ فلسطینیوں کو کیمپوں میں کیسے منتقل کیا جائے گا یا غزہ سے باہر کیمپ کہاں بنائے جا سکتے ہیں لیکن نقشے میں مصر اور قبرص کی طرف اشارہ کرنے والے تیر کے علاوہ اضافی منزل لکھے ہوئے دوسرے مقامات بھی دکھائے گئے ہیں۔ اس تجویز میں کہا گیا ہے کہ غزہ فانڈیشن تعمیر، نقل مکانی اور رضاکارانہ عارضی منتقلی کے لیے تمام ضروری شہری سرگرمیوں کی نگرانی اور انتظام کرے گی۔

رائٹرز کے سوالات کے جواب میں تین انسانی ہمدردی کے ماہرین نے کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کی تفصیلات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔انٹرنیشنل ریفیوجی آرگنائزیشن کے سربراہ اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے سابق سینئر اہلکار جیرمی کونیڈیک نے اس منصوبے کا جائزہ لیا اور کہا کہ ایسی آبادی کے درمیان کوئی رضاکارانہ نقل مکانی نہیں ہوسکتی جو تقریبا دو سال سے مسلسل بمباری کا شکار ہے اور جن سے بنیادی امداد منقطع کر دی گئی ہے۔

اس منصوبے پر کام کرنے والے ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اس منصوبے کا مقصد خوف کے عنصر کو ختم کرنا اور فلسطینیوں کو حماس کے کنٹرول سے فرار ہونے کے قابل بنانا ہے اور اپنے خاندانوں کو پناہ دینے کے لیے ایک محفوظ علاقہ فراہم کرنا ہے۔واضح رہے 7 اکتوبر 2023 کو جنگ اس وقت شروع ہوئی تھی جب حماس نے جنوبی اسرائیل کے قصبوں پر حملہ کیا اور تقریبا 1200 افراد کو مار دیا اور 251 کو یرغمال بنا لیا تھا۔

اسی دن اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کردی اور کچھ دن بعد زمینی کارروائیاں شروع کردی تھیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ کی پٹی میں تاریخ کی بدترین نسل کشی کی جارہی ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پٹی پر بعد میں ہونے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 57,000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ پٹی میں بھوک کا بحران ہے۔ اب تک 66 افراد بھوک سے موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ پٹی کا دو تہائی حصہ تباہ ہوگیا ہے۔