پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوردنی تیل کی پیداوار میں خودکفالت وقت کا اہم تقاضا ہے، زرعی ماہرین

جمعہ 11 جولائی 2025 21:45

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2025ء)زرعی ماہرین نے کہاہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے خوردنی تیل کی پیداوار میں خودکفالت وقت کا اہم تقاضا ہے کیونکہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہر سال خوردنی تیل کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ تل پنجاب میں صدیوں سے کاشت کی جانے والی کم دورانیہ کی اہم روغندار فصل ہے۔

تل کے بیجوں میں 50 فیصد سے زیادہ اعلیٰ خصوصیات کا حامل خوردنی تیل اور تقریبًًا 22 فیصد سے زیادہ اچھی قسم کی پروٹین پائی جاتی ہے۔ اس کے تیل کی خصوصیات بہت حد تک زیتون کے تیل سے ملتی ہیں۔اس کے علاوہ تل کا تیل ادویات سازی،صنعتی مصنوعات اور دیگر گھریلو ضروریات میں استعمال ہوتا ہے۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے تل کی ملکی اور بین الاقوامی مانگ میں اضافہ ہورہا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہاکہ اس کے علاوہ تلوں کی کاشت پر خرچ کم اور رقبہ اور وقت کے حساب سے فی یونٹ آمدنی زیادہ ہے جس کی وجہ سے یہ فصل اب ایک نقد آور فصل کا درجہ اختیار کررہی ہے۔دوسری فصلات کی طرح حکومت پنجاب تل کی کاشت پر بھی بھرپور توجہ دے رہی ہے تاکہ ہم خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہوسکیں۔ فصل کی اچھی پیداوار کیلئے ابتدائی 8 ہفتوں کے دوران جڑی بوٹیوں کی تلفی بہت ضروری ہے کاشتکار جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے محکمہ زراعت کے مقامی زرعی ماہرین کے مشورہ سے سفارش کردہ جڑی بوٹی مار زہریں سپرے کریں۔

تل کی فصل پر حملہ آور ہونے والی بیماریوں میں جڑ اور تنے کی سٹرن اور تل کا اکھیڑاشامل ہیں۔ حملہ شدہ پتے پیلے اور سرخ رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں علاوہ ازیں حملہ شدہ پتے نیچے کی طرف مڑ جاتے ہیں اور خشک ہو کر گر جاتے ہیں جس سے پیداوار میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔چست تیلاکے کیمیائی انسداد کے لیے امیڈاکلوپرڈ 200ایس ایل بحساب 200ملی لٹر فی ایکڑ100سے 120لٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔

سفید مکھیکے بالغ اور بچے دونوں ہی پتوں کا رس چوستے ہیں اور پتوں کی نچلی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ سفید مکھی کی سال میں 12 نسلیں ہوتی ہیں۔ تل کی فصل پرسفید مکھی کا حملہ خشک موسم میں زیادہ ہوتا ہے۔زرعی ماہرین کاکہناہیکہ سفید مکھی کے کیمیائی انسداد کے لیے اسیٹا میپرڈ20ایس پی بحساب 150گرام یا امیڈا کلوپرڈ200 ایس ایل بحساب 200ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کریں۔

تل کی منافع بخش کاشت سے نہ صرف کاشتکار خوشحال ہوں گے بلکہ خوردنی تیل کی درآمد پر اخراجات میں کمی سے کثیرزرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔ توقع ہے کہ حکومت پنجاب، زرعی سائنسدان اور کاشتکاروں کی مشترکہ کاوشوں سے تل کے زیر کاشت رقبہ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوگا اور ہم ہر سال تل کا پیداواری ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔