اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 جولائی 2025ء) بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے وزیر خارجہ ایس جے شنکر پر یہ کہتے ہوئے سخت تنقید کی ہے کہ وہ بھارتی مفاد کے تحفظ کے بجائے صرف بیان بازی کر رہے ہیں۔
بھارتی وزیر خارجہ نے دورہ چین کے بعد ایک بیان میں کہا کہ دونوں ملکوں نے دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کی سمت میں پچھلے نو مہینوں میں اچھی پیش رفت کی ہے، جس پر کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے شدید تنقید کی اور کہا ایس جے شنکر "اب مکمل طور پر سرکس کر رہے ہیں، جس کا مقصد بھارت کی خارجہ پالیسی کو تباہ کرنا ہے۔
"راہول گاندھی نے اپنی ایک پوسٹ میں مزید کہا کہ "میرا اندازہ ہے کہ اب چینی وزیر خارجہ جب بھارت آئیں گے اور وہی چین اور بھارت کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت سے (وزیر اعظم نریندر) مودی کو آگاہ کریں گے۔
(جاری ہے)
وزیر خارجہ تو بس ایک سرکس چلا رہے ہیں، جس کا مقصد بھارت کی خارجہ پالیسی کو تباہ کرنا ہے۔"
بھارت چین تعلقات پر تشویش
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے مئی 2020 میں لداخ میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے پاس چین اور بھارتی فوجیوں کے درمیان لڑائی کے پانچ برس بعد پہلی بار بیجنگ کا دورہ اور کہا کہ بھارت اور چین نے تعلقات بہتر کرنے کی سمت کافی پیش رفت کی ہے۔
حالانکہ چند روز پہلے ہی میں بھارت کے ایک سینیئر فوجی افسر نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان حالیہ لڑائی کے دوران چین نے پاکستان کی مدد کی اور اس وقت بھارت صرف پاکستان سے ہی نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے جنگ میں تھا۔
کانگریس پارٹی نے منگل کے روز ایک بیان بھی جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ وزیر خارجہ سے یہ جاننا چاہتی ہے کہ آخر مودی اور شی جن پنگ کی ملاقات کے بعد سے دو طرفہ ملاقات کتنے بہتر ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں پارٹی نے کہا، "چین نے آپریشن سیندور کے دوران پاکستان کی مکمل حمایت کی، اسے جنگی ساو ز سامان، ہتھیاروں اور ڈرون سمیت دفاعی نظام بھی فراہم کیا۔ ڈپٹی چیف آف آرمی اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل راہول آر سنگھ نے کہا ہے کہ بھارت نے چین سمیت تین دشمنوں کا مقابلہ کیا اور چین نے بھارتی فوجی کارروائیوں کے بارے میں ریئل ٹائم انٹیلیجنس فراہم کی اور پاکستان اس سے جے ایف 35 طیارے بھی حاصل کرنے جا رہا ہے۔
"چین نے اہم اشیاء کی سپلائی بند کر دی؟
کانگریس پارٹی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ چین نے "انفراسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے نایاب زمینی میگنیٹ، خاص قسم کی کھاد اور ٹنل بورنگ مشینوں جیسے نایاب مواد کی بھارت کو برآمدات پر بھی پابندی لگا دی ہے۔"
اس نے کہا، "ٹیلی کام، فارماسیوٹیکل، اور الیکٹرانکس جیسے اہم شعبے چینی درآمدات پر شدید انحصار کرتے ہیں، جبکہ چین کے ساتھ تجارتی خسارہ 99.2 بلین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
"کانگریس پارٹی نے کہا کہ "بھارتی فوجیوں کو اب ڈیپسینگ، ڈیمچوک اور چومار میں اپنی پوسٹوں پر گشت کے لیے چین سے اجازت لینی پڑتی اور ایسے مقامات تک پہنچنے کے لیے چین کی رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔"
بیان میں کہا گیا ہے کہ "گلوان، ہاٹ اسپرنگ اور پینگانگ جھیل میں 'بفر زونز' بنیادی طور پر بھارت کے ماتحت لائن کے اندر ہی واقع ہیں، اب ہمارے فوجیوں کو ان پوائنٹس تک رسائی سے روکا جا رہا ہے، جبکہ اپریل 2020 سے پہلے بھارت کو غیر محدود رسائی حاصل تھی۔
"چین کے سامنے جھکنے کا الزام
کانگریس نے چین سے متعلق بھارتی وزیر خارجہ کے دو برس قبل کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "وزارت خارجہ کا چین کی جانب یہ جھکاؤ حیرت انگیز نہیں ہے۔" واضح رہے کہ جے شنکر نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "دیکھو، وہ (چین) بڑی معیشت ہیں، تو میں کیا کروں گا؟ ایک چھوٹی معیشت کے طور پر، کیا میں بڑی معیشت سے لڑنے جا رہا ہوں؟"
مودی کو نشانہ بناتے ہوئے کانگریس نے کہا، "ان کے آقا، لال آنکھ کے وزیر اعظم، نے بھی اسی طرح 19 جون 2020 کے اپنے بیان سے چین کو کھلی کلین چٹ دی تھی، جب انہوں نے یہ کہا تھا کہ "ہماری سرحد میں نہ تو کوئی داخل ہوا اور نہ ہی کسی نے دراندازی کی ہے۔
"پارلیمان میں بحث کا مطالبہ
کانگریس پارٹی چین کے معاملات پر کافی دنوں سے پارلیمان میں بحث کا مطالبہ کر رہی ہے، تاہم مودی حکومت اس سے انکار کرتی ہے۔ اس نے ایک بار پھر پوچھا کہ کیا مودی اور وزیر خارجہ بھارتی عوام کو اعتماد میں لیں گے اور پارلیمنٹ میں چین پر ایک تفصیلی بحث کریں گے جیسا کہ انڈین نیشنل کانگریس سن 2020 سے مطالبہ کر رہی ہے۔
"کانگریس نے کہا کہ اسے امید ہے کہ وزیر اعظم مودی پارلیمنٹ کے آئندہ مانسون اجلاس میں اس طرح کی بحث سے اتفاق کریں گے اور اس موضوع پر "پانچ سال کی خشک سالی کو ختم کریں گے"۔
کانگریس نے کہا، " اگر پارلیمنٹ نومبر 1962 کی جنگ اور اس صورتحال پر بحث کر سکتی ہے جب چین کا حملہ اپنے عروج پر تھا، تو ہم اب کیوں بحث نہیں کر سکتے۔"
پارٹی نے مزید کہا کہ "چین کے دنیا کی سرکردہ مینوفیکچرنگ طاقت کے طور پر ابھرنے اور دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر اس کی پوزیشن سے پیدا ہونے والے اہم سکیورٹی اور اقتصادی چیلنجوں پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے، جو ایک دہائی کے اندر ہی امریکہ کو پیچھے چھوڑ سکتی ہے۔"
ادارت: جاوید اختر