بھارتی جارحیت، ،تاریخ مسخ کرنے کی کوششوں کے باوجود پاکستان نظریاتی تشخص، سفارتی مزاحمت سے وابستگی پر فخر محسوس کرتا ہے، سردار مسعود خان

جمعہ 18 جولائی 2025 23:32

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 جولائی2025ء)آزاد جموں و کشمیر کے سابق صدر اور اقوامِ متحدہ، امریکہ اور چین میں پاکستان کے سابق سفیر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کی مسلسل جارحیت، منفی پروپیگنڈے اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوششوں کے باوجود پاکستان اپنے نظریاتی تشخص، سفارتی مزاحمت اور عدل و انصاف سے وابستگی پر فخر محسوس کرتا ہے۔

اسلام آباد میں ایک خصوصی انٹرویو کے دوران سردار مسعود خان نے کہا کہ قیام پاکستان کے بعد ملک نے مسلسل سیاسی ارتقا، ادارہ جاتی استقامت اور نظریاتی ہم آہنگی کو فروغ دیا ہے، جب کہ بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کر کے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو دبانے کی کوشش کی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کشمیر محض سرحدی تنازع نہیں بلکہ ایک سنگین انسانی بحران ہے جو لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کر چکا ہے۔

انہوں نے بھارتی تھنک ٹینکس اور پالیسی ساز اداروں کی نام نہاد آزادی پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ ادارے بی جے پی اور آر ایس ایس کے نظریاتی ایجنڈے کے زیرِ اثر کام کر رہے ہیں، جب کہ اس کے برعکس پاکستان میں علمی و فکری آزادی کا ماحول نسبتاً زیادہ کھلا ہے، اور گزشتہ دو دہائیوں میں اس شعبے میں نمایاں ترقی ہوئی ہے۔بھارت کی جانب سے فالس فلیگ آپریشنز اور جھوٹے الزامات کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششوں پر تبصرہ کرتے ہوئے سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ غیر جانبدارانہ تحقیقات اور قابلِ تصدیق شواہد کی حمایت کی ہے۔

ان کے مطابق، بھارت جب بھی داخلی یا خارجی دباؤ کا سامنا کرتا ہے تو ایک نیا جھوٹا بیانیہ گھڑ کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔سردار مسعود خان نے کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اقدامات کو آبادیاتی انجینئرنگ اور سیاسی استیصال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت 1947 سے کشمیری شناخت کو مٹانے کے لیے سیاسی، عسکری اور قانونی ہتھکنڈوں کا استعمال کر رہا ہے، جو اب تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔

پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق، انتہا پسندی اور آئینی معاملات سے متعلق سوالات پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو چیلنجز درپیش ضرور ہیں، تاہم ریاست ایسے عناصر کی سرپرستی نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں عدلیہ، میڈیا اور سول سوسائٹی فعال کردار ادا کر رہے ہیں اور خلاف ورزیوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان انتہاپسندی کو ہرگز جائز نہیں سمجھتا، تاہم اس مسئلے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں معاشرہ خود احتسابی، مکالمے اور اصلاح کے سفر سے گزر رہا ہو۔

سردار مسعود خان نے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو برصغیر میں مسلم شناخت کے تحفظ کے لیے قائم ہوئی، تاہم اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ یہاں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ ان کے مطابق پاکستان کا بیانیہ جامد نہیں بلکہ ایک جاری مکالمے اور مسلسل اصلاح پر مبنی ہے، جو اختلاف رائے کو دبانے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

بھارت کی بیرونی سرگرمیوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا اب بھارت کے اصل چہرے کو پہچاننے لگی ہے۔ انہوں نے کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل، امریکہ میں سازشوں، اور یورپ میں جاسوسی نیٹ ورکس جیسے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات بھارت کے جمہوری دعووں کی نفی کرتے ہیں۔انٹرویو کے اختتام پر سردار مسعود خان نے جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور تعاون کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جنگ کا خواہاں نہیں، بلکہ انصاف، گفت و شنید اور باوقار مکالمے کے ذریعے تنازعات کے حل کا خواہاں ہے۔

ان کا کہنا تھا ہم امن چاہتے ہیں، لیکن ایسا امن جو وقار، آزادی اور سچائی پر مبنی ہو۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا کو ترقی کے لیے جھوٹی عظمت کے سرابوں سے نکل کر حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔سردار مسعود خان نے اس موقع پر واضح کیا کہ پاکستان خود کو عالمی منظرنامے میں ایک باوقار، سنجیدہ اور ذمہ دار ریاست کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو علاقائی و عالمی استحکام کے لیے ایک مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔