دو درجن سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں کاروبار ختم یا بڑے پیمانے پر کمی کا انکشاف

سیاسی عدم استحکام، ٹیکس کی پالیسی میں بار بار تبدیلیاں، من مانی ریگولیٹری نفاذ اور معاملات میں سٹیک ہولڈرز کی کم سے کم مشاورت نے کاروباری اعتماد کو نقصان پہنچایا؛ رپورٹ

Sajid Ali ساجد علی پیر 21 جولائی 2025 15:38

دو درجن سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں کاروبار ختم یا بڑے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 جولائی 2025ء ) پاکستان میں دو درجن سے زائد ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار ختم ہونے یا ان کے آپریشنز میں بڑے پیمانے پر کمی کا انکشاف سامنے آگیا۔ انگریزی اخبار ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق جولائی 2025 میں اعلان کیا گیا کہ مائیکروسافٹ نے 25 سال بعد پاکستان میں اپنا مقامی دفتر بند کر دیا ہے، ٹیک دیو نے 2000ء کی دہائی کے اوائل میں پاکستان میں اپنی موجودگی قائم کی اور اس کے بعد سے لائسنسنگ، سافٹ ویئر پارٹنرشپ اور صلاحیت سازی میں اہم کردار ادا کیا لیکن اب خاموشی سے کام ختم کرتے ہوئے اپنے باقی ماندہ عملے کو فارغ کردیا۔

اس پر مائیکروسافٹ نے کہا کہ ’یہ اقدام مصنوعی ذہانت اور علاقائی استحکام کی جانب وسیع تر عالمی تنظیم نو کا حصہ تھا‘، تاہم مقامی کاروباری برادری نے اس فیصلے کو بین الاقوامی فرموں کے لیے پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کے طور پر دیکھا کیوں کہ مائیکروسافٹ کا اخراج کوئی الگ تھلگ معاملہ نہیں بلکہ یہ ایک وسیع تر رجحان کا حصہ ہے جس میں دو درجن سے زیادہ ملٹی نیشنل کمپنیاں شامل ہیں جنہوں نے پچھلے تین سالوں میں پاکستان میں اپنے آپریشنز کو یا تو بالکل ختم کر دیا ہے یا کافی حد تک کم کر دیا۔

(جاری ہے)

بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے جانے والی کمپنیوں میں مختلف سیکٹرز کے دنیا کے جانے پہچانے نام جیسا کہ شیل، پراکٹر اینڈ گیمبل، لوٹے، سیمنز انرجی، یونی لیور کا لپٹن ڈویژن اور ریکٹ بینکیزر کا ہیلتھ پورٹ فولیو نمایاں ہیں، یہ مسلسل اخراج پاکستان کے معاشی بیانیے اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور اسے برقرار رکھنے کی کوششوں کے لیے ایک سنگین چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان کے لیے غیر ملکی سرمائے کے ذرائع سے بڑھ کر تھیں کیوں کہ انہوں نے کارپوریٹ گورننس، ٹیکنالوجی اور انتظام میں عالمی معیارات متعارف کروائے، ان کی موجودگی نے مقامی صنعتوں کو جدید بنانے میں مدد کی اور پاکستانی افرادی قوت کو بین الاقوامی کاروباری طریقوں، مہارتوں کو بڑھانے اور مقامی ٹیلنٹ کو عالمی پیشہ ورانہ نیٹ ورکس میں ضم کرنے میں قابل قدر کردار ادا کیا۔

معلوم ہوا ہے کہ اس وقت مقامی کمپنیوں کے بورڈز میں خدمات انجام دینے والے بہت سے ایگزیکٹوز نے ان عالمی فرموں میں اپنی پیشہ ورانہ ترقی کا آغاز کیا جہاں انہوں نے وہ مہارتیں، تربیت اور ایکسپوژر حاصل کیا جس نے انہیں قائدانہ کردار کے لیے تیار کیا، لہذا یہ اخراج نا صرف سرمایہ کاری کے نقصان کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ادارہ جاتی تعلیم اور افرادی قوت کی ترقی کے لیے بھی ایک دھچکا ہے۔

بتایا جارہا ہے کہ اس رجحان کے پیچھے اہم کردار ادا کرنے والے عوامل میں سے ایک پاکستانی روپے کی مسلسل گراوٹ ہے، جس نے 2021ء سے اپنی قدر کا 50 فیصد سے زیادہ کھو دیا، اس تیزی سے ہونے والی قدر میں کمی نے غیرملکی کمپنیوں کے لیے مقامی آپریشنز کو مالی طور پر ناقابل عمل بنا دیا، اس کے علاوہ منافع کی واپسی پر سخت پابندیاں بھی اتنی ہی اہم ہیں، کیوں کہ پاکستان کے دائمی توازن ادائیگی کے بحران کی وجہ سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سخت سرمائے کے کنٹرول نافذ کیے جس کی وجہ سے کمپنیوں کو بیرون ملک منافع بھیجنے سے روکا گیا۔

انکشاف ہوا ہے کہ 2023ء میں اپنے عروج پر بلاک شدہ ڈیویڈنڈز میں ایک بلین ڈالرز سے زیادہ کلیئرنس کے منتظر تھے، جس کی وجہ سے کچھ کمپنیاں اپنی بیلنس شیٹس پر کرنسی کے بڑھتے ہوئے نقصانات کو جذب کرنے پر مجبور تھیں، یہ مالیاتی نزاکت غیر متوقع پالیسی ماحول کی وجہ سے بڑھ گئی، سیاسی عدم استحکام، ٹیکس کی پالیسی میں بار بار تبدیلیاں، من مانی ریگولیٹری نفاذ اور سٹیک ہولڈر کی کم سے کم مشاورت نے کاروباری اعتماد کو نقصان پہنچایا۔

رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اکثر اقتصادی فیصلہ سازی میں مستقل اقتصادی سمت کی عدم موجودگی اور غیر منتخب اداروں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو بڑی رکاوٹوں کے طور پر بتایا، بعض صورتوں میں کمپنیوں نے سابقہ ٹیکس کے مطالبات یا درآمدی قوانین میں اچانک تبدیلیوں سے آگاہی نہ دیئے جانے کی بھی اطلاع دی کیوں کہ اس سے کاروباری منصوبہ بندی اور آپریشنز کی حکمت عملیوں میں خلل پڑتا ہے۔