ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی

DW ڈی ڈبلیو پیر 21 جولائی 2025 16:00

ٹرمپ کی پاکستان میں دلچسپی اور بھارت کی نئی سفارتی صف بندی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جولائی 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی آرمی چیف، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں دوپہر کے کھانے پر مدعو کرنا نئی دہلی میں گہرے سفارتی اضطراب کا باعث بنا ہے۔ بھارت نے نہ صرف اس ملاقات پر باضابطہ احتجاج کیا بلکہ اسے پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں امریکہ کی ''غیر ذمہ دارانہ ترجیح‘‘ قرار دیا۔

نئی دہلی میں حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس پیش رفت سے دو دہائیوں پر محیط امریکہ-بھارت اسٹریٹیجک شراکت داری پر ''دھند چھا گئی ہے۔‘‘

بھارت کا دو ٹوک موقف

بھارت کے اعلیٰ حکام نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کی اس ملاقات سے ان عناصر کو تقویت ملی ہے، جو خطے میں شدت پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

نئی دہلی نے واشنگٹن کو واضح پیغام دیا ہے کہ ''سرحد پار دہشت گردی بھارت کے لیے ایک سرخ لکیر‘‘ ہے۔

مئی میں پیدا ہونے والے حالیہ کشیدہ حالات، جن میں کشمیر میں ہندو سیاحوں پر جان لیوا حملہ بھی شامل تھا، کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی تھی، جس کا پاکستان نے ڈرون اور میزائل حملوں کے ساتھ جواب دیا تھا۔

فوجی سربراہ سے ملاقات: 'غیر معمولی سفارتی اشارہ‘

صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستانی فوج کے سربراہ کو سویلین قیادت کے بغیر مدعو کرنا معمول سے ہٹ کر تھا۔

یہ پہلی بار ہوا کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف سے اس نوعیت کی براہ راست ملاقات کی۔ اس موقع پر دہشت گردی کے خلاف تعاون اور پاکستان کو ملنے والی امریکی دفاعی امداد پر بھی بات چیت ہوئی۔ بھارت کو خدشہ ہے کہ یہ امداد مستقبل میں اس کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ بھارت کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ بھارت کبھی بھی اپنے دعووں کے حق میں قابل قبول ثبوت فراہم نہیں کرتا۔

پاکستان کا موقف ہے کہ اصل مذہبی انتہا پسندی بھارت کے اندر ہے، جہاں نریندر مودی کی حکومت پر مسلم اقلیتوں کے خلاف امتیازی پالیسیوں کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

واشنگٹن کے تعلقات کا توازن بگڑتا ہوا؟

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ ''آزادانہ اور مساوی تعلقات‘‘ ہیں، جو اپنا الگ الگ پس منظر رکھتے ہیں۔

لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔ ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن سے وابستہ امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے، ''ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت کے تحفظات کو نظرانداز کر کے پاکستان کے ساتھ تیز رفتار مصروفیت نےنئی دہلی اور واشنگٹن کے دوطرفہ تعلقات میں سرد مہری پیدا کر دی ہے۔‘‘

بھارت کا 'توازن‘ کے لیے اقدام

ان حالات میں بھارت نے چین کے ساتھ تعلقات میں نرمی پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی ہے۔

وزیر خارجہ جے شنکر نے حالیہ دنوں میں بیجنگ کا دورہ کیا، جو دونوں ممالک کے مابین 2020 کی سرحدی جھڑپ کے بعد پہلا اہم سفارتی رابطہ تھا۔ ساتھ ہی بھارت نے چینی سرمایہ کاری پر عائد پابندیوں میں نرمی کا عندیہ بھی دیا ہے۔

مبصرین کے مطابق بھارت اب ٹرمپ کی غیر متوقع سفارتی روش کے مقابلے میں بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو سفارتی توازن کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

ٹرمپ کا کردار: ثالثی یا الجھاؤ؟

صدر ٹرمپ ماضی میں متعدد بار یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ کو رکوایا۔ بھارت میں مودی حکومت نے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جنگ بندی دونوں ممالک کے عسکری حکام کے براہ راست مذاکرات سے ممکن ہوئی تھی، نہ کہ کسی امریکی مداخلت سے۔

اسی تناظر میں بھارت نے جی سیون ممالک کے اجلاس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دی گئی دورہ امریکہ کی دعوت بھی رد کر دی ہے، جب کہ عالمی ادارہ تجارت میں بھارت نے امریکہ کے خلاف جوابی تجارتی اقدامات کی تجویز بھی پیش کر دی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق صدر ٹرمپ کی پاکستانی فوجی قیادت سے براہ راست ملاقات نے بھارت کے ساتھ امریکہ کے اسٹریٹیجک تعلقات میں نیا تناؤ پیدا کر دیا ہے۔ بھارت اب ایک بار پھر علاقائی توازن کی پالیسی کی طرف مائل ہوتا دکھائی دے رہا ہے، جس میں چین کے ساتھ محتاط قربت اور امریکہ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش نمایاں ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا واشنگٹن اس نئی سرد مہری کو سنبھال پائے گا یا جنوبی ایشیا میں اس کی اسٹریٹیجک ساکھ مزید کمزور ہو جائے گی؟

ادارت: مقبول ملک