اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 جولائی 2025ء) ایک اہم فیصلے میں،بمبئی ہائی کورٹ نے پیر 21 جولائی کو 2006 میں ممبئی ٹرین دھماکوں کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے تمام 12 افراد کو، یہ کہتے ہوئے بری کر دیا کہ استغاثہ ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ’’بالکل ناکام‘‘ رہا۔ یہ تمام ملزمان مسلمان ہیں۔
جسٹس انیل ایس کلور اور شیام سی چندک کی خصوصی ڈویژن بنچ نے 2015 میں کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم (مکوکا) ایکٹ کے تحت قائم مہاراشٹرا کی ایک خصوصی عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزاؤں کو پلٹ دیا، جس نے پانچ ملزمان کو سزائے موت اور باقی سات کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
بمبئی ہائی کورٹ کی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا ’’استغاثہ کیس کو شکوک و شبہات سے بالاتر ثابت کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔
(جاری ہے)
اور پولیس کے دلائل پر یقین کرنا مشکل ہے کہ ملزمین نے جرم کیا ہے۔ اس لیے ان کی سزا منسوخ کی جاتی ہے۔‘‘
بنچ نے مزید کہا، ’’جرم کے اصل مرتکب کو سزا دینا، مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنے، قانون کی حکمرانی کو برقرار رکھنے اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹھوس اور ضروری قدم ہے، لیکن یہ جھوٹا تاثر دینا کہ ملزمان کو قانون کے سامنے پیش کر کے کیس کو حل کرلیا گیا ہے، مسئلے کے حل کا گمراہ کن احساس پیدا کرتا ہے۔
‘‘اسدالدین اویسی کا ردعمل
رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے تمام بارہ افراد کو رہا کیے جانے کے عدالت کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ ملزمان کی زندگی کے قیمتی 18 سال اس ناکردہ گناہوں کے الزام میں تباہ کر دیے گئے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اویسی نے ایکس پر لکھا، ’’12 مسلمان مرد 18 سال سے اس جرم کے لیے جیل میں تھے جو انھوں نے نہیں کیا تھا۔
ان کی بنیادی زندگی ختم ہو گئی ہے۔ 180 خاندان جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا اور متعدد زخمی ہوئے- انہیں کوئی تسلّی نہیں ملی۔‘‘اویسی نے اس طرح کے ہائی پروفائل کیسوں کے سلسلے میں پولیس کو اس کے رویے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا اور میڈیا پر متوازی ٹرائل چلانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا ’’ایسے کیسز میں جہاں عوامی ردعمل شدید ہوتا ہے، پولیس کا نقطہ نظر ہمیشہ پہلے کسی کو جرم قبول کرانے کا ہوتا ہے… میڈیا جس طرح کیس کو کور کرتا ہے، اس سے اس شخص کے جرم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔
‘‘اویسی نے اس کیس کی تحقیقات کرنے والے مہاراشٹر کے اے ٹی ایس افسران کے خلاف بھی کارروائی کا مطالبہ کیا اور 2006 میں سیاسی قیادت کے کردار پر بھی سوال اٹھایا۔
دیگر جماعتوں کا ردعمل
ہندو قوم پرست جماعت شیو سینا کے رکن پارلیمان ملند دیورا، جو 2006 میں ممبئی سے ایم پی تھے، نے کہا، ''بطور ممبئی کے رہائشی، میں اس فیصلے کو قبول نہیں کر سکتا… میں مہاراشٹر حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بہترین وکیلوں کی خدمات حاصل کرے اور بمبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف فوری اپیل کرے۔
‘‘بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے فیصلے کو ’’انتہائی مایوس کن‘‘ قرار دیا اور ’’تحقیقات اور قانونی لڑائی دونوں میں کوتاہیوں‘‘ کی طرف اشارہ کیا۔
خصوصی سرکاری وکیل اور اب رکن پارلیمان اجول نکم نے کہا کہ ملزمان کے بری ہونے سے سنگین خدشات پیدا ہوتے ہیں اور ریاست اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرے گی۔
ہوا کیا تھا؟
گیارہ جولائی 2006 کو بھارت کے اقتصادی دارالحکومت ممبئی کے ویسٹرن ریلوے لائن پر مختلف مقامات پر ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں سات دھماکے ہوئے، جن میں تقریباﹰ دو سو افراد ہلاک اور 829 زخمی ہوئے۔
حملہ آوروں نے دور دراز کے مضافاتی علاقوں کی طرف جانے والی بھیڑ بھری ٹرینوں کو نشانہ بنایا تھا اور یہ دھماکے ماٹونگا اور میرا روڈ ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان چلتی ٹرینوں میں ہوئے۔
دھماکے اتنے شدید تھے کہ انہوں نے دوہرے پرتوں والی موٹی اسٹیل کی چھتوں اور سات کمپارٹمنٹس میں سے ہر ایک کے اطراف کو چیر کر مسافروں کو باہر پھینک دیا۔
ماہم اور بوریولی ریلوے اسٹیشنوں پر، ڈبوں میں مسافروں کے علاوہ، دھماکوں میں پلیٹ فارم پر انتظار کرنے والے مسافروں اور چرچ گیٹ کی طرف جانے والی ٹرینوں سے سفر کرنے والے بھی ہلاک اور زخمی ہوئے۔
ممبئی پولیس نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ حملوں کی ذمہ داری لشکر طیبہ سے تعلق رکھنے والے گروپ لشکر قہار نے لی ہے۔ اس وقت کے قومی سلامتی مشیر ایم کے نارائنن نے کہا تھا کہ اس حملے میں پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کا کوئی 'قابل اعتماد‘ ثبوت نہیں ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین