حکومت 26ویں ترمیم معاہدے پر قائم نہ رہی تو عدالت جانا ہوگا پھر حالات آسان نہیں ہوں گے، فضل الرحمان

حکومت کو سنجیدگی سے وعدوں اور آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا ورنہ قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی، جرأت مندانہ مؤقف کی ضرورت ہے تاکہ ملک موجودہ افراتفری سے نکلے؛ تقریب سے خطاب

Sajid Ali ساجد علی بدھ 23 جولائی 2025 15:58

حکومت 26ویں ترمیم معاہدے پر قائم نہ رہی تو عدالت جانا ہوگا پھر حالات ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 جولائی 2025ء ) جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ حکومت 26ویں ترمیم معاہدے پر قائم نہیں رہتی تو عدالت جائیں گے، پھر حکومت کے لیے حالات آسان نہیں ہوں گے۔ اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا جس کے بعد ترمیم 22 نکات تک محدود ہوئی اور اس پر بھی مزید اصلاحات تجویز کی گئیں، وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027ء تک سود کے خاتمے کا حتمی فیصلہ دیا اور اب آئینی ترمیم کے بعد یہ باقاعدہ دستور کا حصہ بن چکا ہے کہ یکم جنوری 2028ء سے سود کا مکمل خاتمہ ہوگا، اگر کسی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو وہ ایک سال کے اندر فیصلہ ہو کر نافذ العمل ہوگا کیوں کہ شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل دائر ہوتے ہی معطل ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

سربراہ جے یو آئی ف نے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزا کا قانون تو بنا دیا گیا مگر غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے نام پر روایات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے، کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں نکاح میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور زنا کو سہولت دی جا رہی ہے؟ قانون سازی کرتے وقت ملک کے رواج کو بھی دیکھنا چاہیئے تاکہ معاشرتی اقدار پامال نہ ہوں، پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش کی جاتی تھیں اب ان پر بحث ہوگی، کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے؟۔

مولانا فضل الرحمان کہتے ہیں کہ ہم نے اتحاد امت کے لیے قربانیاں دیں جیلیں کاٹیں مگر پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانے کو ہم نے حرام قرار دیا، سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے مگر بے گھر ہونے والے آج بھی دربدر ہیں، ریاست کہاں ہے؟ دہشت گرد دن دیہاڑے دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں جو لوگ افغانستان گئے تھے وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟ ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔

انہوں نے واضح کیا کہ ہم آئین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان میں مسلح جدوجہد کو غیرشرعی اور حرام قرار دے چکے ہیں، ہمیں ایک جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کو موجودہ افراتفری سے نکالا جا سکے، دہشت گردی کا خاتمہ ابھی بہت دور ہے اور حکومت کو سنجیدگی سے اپنے وعدوں اور آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی۔