سوات،علمائے کرام کی مدرسے میں وحشیانہ تشدد سے طالبعلم کی موت کے واقعے کی شدید مذمت

عدالت نے واقعے میں ملوث 11 ملزمان کو دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا

جمعرات 24 جولائی 2025 21:00

سوات (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 جولائی2025ء)سوات کے مدرسے میں اساتذہ کے وحشیانہ تشدد کے نتیجے میں طالبعلم کی ہلاکت کے واقعے کی علمائے کرام نے شدید مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی بنیاد پر مدارس کے خلاف انتقامی نہ کرنے کی اپیل کی ہے، علما نے متاثرہ خاندان سے اظہارافسوس کیا ہے، عدالت نے واقعے میں ملوث 11 ملزمان کو دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا، مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں کیا جاسکا۔

سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک مدرسے میں مبینہ تشدد کے باعث طالب علم کی موت کے کیس میں پولیس نے جمعرات کو گرفتار ہونے والے 11 اساتذہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ خوازہ خیلہ کی عدالت میں پیش کیا، عدالت نے ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا، کیس کے مرکزی ملزم، مدرسے کے مہتمم اور ایک اور اہم شخص کو تاحال گرفتار نہیں کیا جا سکا۔

(جاری ہے)

ڈی پی او سوات عمر خان نے بتایا کہ پولیس نے خصوصی ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں اور باقی ملزمان کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن جاری ہے، انہوں نے کہا کہ ’ ہمارے پاس مرکزی ملزمان تک پہنچنے کے لیے اہم شواہد موجود ہیں اور ہم جلد ان تک پہنچ جائیں گے۔’دوسری جانب وفاق المدارس العربیہ خیبرپختونخوا کے صوبائی سربراہ مولانا حسین احمد نے چلیار، خوازہ خیلہ میں مدرسے کے اندر نوجوان طالب علم فرحان پر وحشیانہ تشدد اور قتل کی شدید مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ نہ صرف متاثرہ خاندان بلکہ پوری قوم اور علمائے کرام کے لیے انتہائی المناک اور تکلیف دہ ہے۔جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ضلعی دفتر سوات میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا حسین احمد نے مرحوم فرحان کے خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا۔اس موقع پر وفاق المدارس ملاکنڈ ڈویژن کے مولانا قاری محب اللہ، مولانا قاری محمد طاہر، جے یو آئی سوات کے امیر مولانا سید قمر، جنرل سیکریٹری اعجاز خان، وحدت المدارس کے مولانا سمیع الحق، جماعت اسلامی کے اختر علی خانجی، تنظیم المدارس کے نور محمد کفایت اللہ، رابطہ المدارس کے سید محمد فاروقی، اشاعت التوحید والسنہ کے مولانا عصمت اللہ، جے یو آئی سوات کے ترجمان مفتی صادق محمد اور دیگر علما بھی موجود تھے۔

علمائے کرام نے گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندان اور مقامی برادری کو یقین دلایا کہ اس دکھ کی گھڑی میں دینی قیادت ان کے ساتھ کھڑی ہے۔مولانا حسین احمد نے کہا کہ وفاق المدارس کے مرکزی رہنما مفتی تقی عثمانی نے بھی متاثرہ خاندان سے تعزیت کی ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت اس افسوسناک واقعے میں ملوث افراد کو سخت اور عبرتناک سزا دے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا سدباب ہو سکے۔

انہوں نے تسلیم کیا کہ اس طرح کے افسوسناک واقعات دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پیش آتے رہتے ہیں اور ان کی ہمیشہ مذمت ہونی چاہیے، تاہم انہوں نے زور دیا کہ چند افراد کی حرکتوں کی بنیاد پر پورے دینی تعلیمی نظام کو بدنام نہیں کیا جا سکتا۔مولانا حسین احمد نے کہا کہ بدقسمتی سے اس واقعے کے بعد دینی مدارس کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم شروع کر دی گئی ہے، جس میں ان کے عشروں پر محیط اجتماعی کردار کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ دینی مدارس نے قرآن و سنت کی تعلیمات کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ملک کی بے شمار مساجد انہی مدارس سے تربیت یافتہ علما چلا رہے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ’ ان اداروں کو بدنام یا کمزور کرنے کی کسی بھی سازش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ اس افسوسناک واقعے کو تمام مدارس کی بدنامی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، کیونکہ اس سے دینی تعلیم کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے اعلان کیا کہ خیبرپختونخوا کے مدارس میں اساتذہ کی تربیت کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ’ مدارس میں اندرونی نگرانی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام پہلے سے موجود ہے اور اس کی کڑی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے۔’مولانا حسین احمد نے حکومت اور مقامی انتظامیہ کو خبردار کیا کہ کسی ایک واقعے کی بنیاد پر مدارس کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کی جائے، انہوں نے الزام عائد کیا کہ غیر رجسٹرڈ این جی اوز دینی مدارس کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہی ہیں اور ان کا ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔

انہوں نے میڈیا سے پیل کی کہ وہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور ایسے ویڈیوز یا مواد کے نشر کرنے سے گریز کرے جو دینی اداروں کی بدنامی کا سبب بنے، اور صحافیوں کو یاد دلایا کہ وہ بھی اسی معاشرے اور دین کا حصہ ہیں۔