Live Updates

سینیٹ قائمہ کمیٹی نے آبی وسائل کا مربوط آبی حکمرانی، بروقت ادارہ جاتی ردعمل اور تجاوزات و انتظامی تاخیر کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور

بدھ 30 جولائی 2025 21:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 جولائی2025ء)سینیٹ قائمہ کمیٹی آبی وسائل نے مربوط آبی حکمرانی، بروقت ادارہ جاتی ردعمل اور تجاوزات و انتظامی تاخیر کیخلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضابطہ جاتی خامیوں اور انفراسٹرکچر میں تاخیر کا مسئلہ فوری حل کیا جائے ۔بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کا اجلاس اولڈ پپس ہال، پارلیمنٹ لاجز میں منعقد ہوا جس کی صدارت سینیٹر شہادت اعوان نے کی۔

اجلاس میں زیر التوا تعمیلی رپورٹس، اہم انفراسٹرکچر کی رکاوٹیں، زیر زمین پانی کے انتظام میں قانونی خلاء ، اور قدرتی آبی گزرگاہوں پر غیر قانونی قبضوں کے مسائل پر غور کیا گیا۔اجلاس کے آغاز میں، کمیٹی نے 9 جنوری، 6 فروری، 25 فروری اور 19 مارچ 2025 کو ہونے والے اجلاسوں میں جاری کردہ ہدایات پر عملدرآمد کے التواپر تشویش کا اظہار کیا۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے نوٹ کیا کہ بارہا یاد دہانیوں اور سوالات کے باوجود متعدد امور تاحال حل طلب ہیں۔

وزارت کو ہدایت دی گئی کہ وہ تمام سفارشات پر عملدرآمد، تاخیر کی وجوہات اور نظرثانی شدہ اوقات کا تعین کرتے ہوئے ایک جامع رپورٹ پیش کرے۔جب کمیٹی نے اپنی سفارشات پر عملدرآمد کے ایجنڈا پر بات کی تو وفاقی سیلاب کمیشن میں خالی آسامیوں کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ 37 آسامیوں میں سے 21 پر تقرری ہو چکی ہے جبکہ 16 اب بھی خالی ہیں۔

چیئرمین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان آسامیوں پر بروقت بھرتی نہ ہونے سے وزارت کا کام متاثر ہوتا ہے اور ایسی انتظامی تاخیر سے گریز کرنا چاہیے۔ کمیٹی نے FFC کو ہدایت دی کہ تین ماہ کے اندر خالی آسامیوں پر ہونے والی پیش رفت کی رپورٹ پیش کرے۔بعد ازاں ڈیم سیفٹی کونسل سے متعلق قانون سازی کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔ وزارت آبی وسائل نے کمیٹی کو بتایا کہ ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے "ڈیم سیفٹی بل" تیار کر لیا گیا ہے اور دو روز قبل وزارت کو پیش کیا گیا ہے۔

وزارت کے نمائندے نے امید ظاہر کی کہ بل کی حتمی جانچ پڑتال کے بعد تین ماہ میں ایوان میں پیش کر دیا جائے گا۔اجلاس میں ملک بھر میں آبی گزرگاہوں پر بڑھتے ہوئے قبضوں کے مسئلے پر بھی سنجیدہ گفتگو ہوئی۔ ارکان نے قدرتی نالوں اور ندی نالوں پر تیزی سے بڑھتی غیر قانونی تعمیرات اور زمین پر قبضے کو اجاگر کیا۔ کمیٹی نے وزارت آبی وسائل اور متعلقہ مقامی حکام کو فوری کارروائی کرتے ہوئے قبضے ختم کرنے اور متاثرہ مقامات، ذمہ دار اداروں اور صفائی کے اوقات کا تعین کرتے ہوئے جامع رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

کمیٹی نے دریاو ں اور آبی گزرگاہوں پر تجاوزات سے متعلق سپارکو اور ایف ایف سی کی باہمی ہم آہنگی کے بارے میں سوال کیا۔ تاہم سپارکو کے نمائندے کمیٹی کو مطمئن نہ کر سکے۔ چیئرمین نے سپارکو کو ہدایت دی کہ وہ ایف ایف سی اور پی آئی ڈی سے مشاورت کر کے ایک ماہ کے اندر رپورٹ پیش کرے۔ مزید برآں۔ انہوں نے وزارت کو ہدایت کی کہ متعلقہ افسران یا اداروں کی جانب سے نالوں پر قبضے کی نشاندہی اور انہیں ختم کرنے میں غفلت اور نافرمانی پر تحقیقات کی جائیں، کیونکہ یہ جرم پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 119 اور 166 کے تحت آتا ہے۔

اس کے بعد سی ڈی اے کو اسلام آباد کی حدود میں نالوں اور آبی گزرگاہوں پر تجاوزات سے متعلق معلومات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ س یڈی اے کے نمائندے مطلوبہ تفصیلات فراہم نہ کر سکے، جس پر کمیٹی نے سی ڈی اے کو ایک ماہ کے اندر تجاوزات اور ان کے خاتمے کے اقدامات پر چیئرمین سی ڈی اے کو بریف کرنے کی ہدایت دی۔کمیٹی کو "نئی گج ڈیم" منصوبے کی پیش رفت پر بھی بریفنگ دی گئی جو وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ ہونے کے باعث تعطل کا شکار ہے۔

واپڈا اور وزارت کے حکام نے بتایا کہ ملک میں مہنگائی اور فنڈنگ کے تعطل کے باعث منصوبے میں تاخیر ہوئی۔ کمیٹی نے لاگت میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا اور حکومت پر زور دیا کہ جون 2027 کی تخمینہ مدت کے مطابق منصوبے کی بروقت تکمیل کے لیے تیسری نظرثانی شدہ PCI کو ایک ماہ کے اندر منظور کیا جائے اور فنڈز جاری کیے جائیں۔ چیئرمین نے اس معاملے کو اعلی سطح پر اٹھانے پر زور دیا، جس پر وزیر آبی وسائل جناب معین وٹو نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ایک ماہ کے اندر تیسری پی سی آئی کی منظوری اور واپڈا کے مطالبے کے مطابق فنڈز کی فراہمی کے لیے حکومت سے بات کریں گے۔

قومی آبی پالیسی اور زیر زمین پانی کے ضابطوں پر عملدرآمد سے متعلق بریفنگ میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ اگرچہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا نے متعلقہ قوانین منظور کیے ہیں، مگر ان پر عملدرآمد محدود ہے۔ بلوچستان میں پہلے سے موجود قانون کو چند ماہ میں نئے قانون کے ذریعے اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ چیف انجینئر، بلوچستان نے بتایا کہ مختلف انتظامی احکامات اور پالیسیاں جاری کی گئی ہیں، لیکن مکمل نفاذ صوبائی اسمبلی سے قانون کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہوگا۔

KPK کے نمائندے نے اعتراف کیا کہ ان کے پاس زیر زمین پانی سے متعلق کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے خیبرپختونخوا میں شہری سیلاب اور زیر زمین پانی کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا، جہاں تعمیرات پر کوئی پابندی نہیں۔ سیکرٹری آبی وسائل نے بتایا کہ وفاقی وزارت نے مسلسل صوبوں کو خطوط لکھے مگر خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ صوبائی سطح پر قانون پر عملدرآمد میں تاخیر طویل المدتی آبی پائیداری کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔

تمام صوبوں کو ہدایت دی گئی کہ ایک ماہ کے اندر واضح ٹائم لائنز، منظور شدہ قانونی اقدامات اور درپیش عملی چیلنجز کے ساتھ تازہ رپورٹ جمع کروائیں۔اجلاس میں سینیٹر پونجو بھیل، سعدیہ عباسی، ہمایوں مہمند، سعید احمد ہاشمی اور خلیل طاہر کے علاوہ وزیر آبی وسائل، ایڈیشنل سیکرٹری، واپڈا کے سینئر افسران اور صوبائی محکمہ آبپاشی کے نمائندگان نے شرکت کی۔

کمیٹی نے مربوط آبی حکمرانی، بروقت ادارہ جاتی ردعمل، اور تجاوزات و انتظامی تاخیر کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔چیئرمین سینیٹر شہادت اعوان نے اجلاس کے اختتام پر ضابطہ جاتی خامیوں اور انفراسٹرکچر میں تاخیر کے فوری حل کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں ایف آئی اے اور نیب کے نمائندوں کو مدعو کیا جائے تاکہ واپڈا منصوبوں سے متعلق انکوائریوں اور زیر التوا کیسز پر ان کی رائے حاصل کی جا سکے۔
Live مہنگائی کا طوفان سے متعلق تازہ ترین معلومات