اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے ’نیو یارک اعلامیہ‘ جاری

یو این جمعرات 31 جولائی 2025 20:30

اسرائیل فلسطین تنازعہ کے دو ریاستی حل کے لیے ’نیو یارک اعلامیہ‘ جاری

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 31 جولائی 2025ء) فلسطینی مسئلے کے دو ریاستی حل سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس کے شرکا نے غزہ میں جنگ کے خاتمے، اسرائیل فلسطین تنازع کے منصفانہ، پُرامن اور دیرپا حل کے لیے متحد ہو کر کام کرنے اور دونوں فریقین سمیت خطے بھر کے لوگوں کے لیے بہتر مستقبل کی تعمیر میں تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ میزبانی میں منعقد ہونے والی سہ روزہ کانفرنس کے آخری روز 'نیویارک اعلامیہ' جاری کیا گیا جس میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین آٹھ دہائیوں سے جاری تنازع اور غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کا مرحلہ وار مںصوبہ پیش کیا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مسئلے کا پائیدار حل ایک آزاد اور غیرعسکری فلسطینی ریاست کا تقاضا کرتا ہے جو اسرائیل کے ساتھ پرامن بقائے باہمی سے رہے۔

(جاری ہے)

'فلسطینی مسئلے کے پر امن تصفیے اور اس کے دو ریاستی حل پر عملدرآمد' کے موضوع پر ہونے والی اس کانفرنس کا مقصد فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ممکن بنانا تھا۔

دلیرانہ اقدامات کی ضرورت

سعودی عرب، فرانس اور کانفرنس کے موضوع سے متعلقہ ورکنگ گروپس میں شامل ممالک* کی جانب سے سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے 'نیویارک اعلامیہ' اور اس سے ملحقہ دستاویز کی توثیق کی۔

اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے نتائج سیاسی، انسانی، معاشی، قانونی، امدادی اور تزویراتی حوالے سے جامع تجاویز کی عکاسی کرتے ہیں اور ان سے ایک ایسا مربوط اور قابل عمل فریم ورک طے پاتا ہے جس کے ذریعے دو ریاستی حل پر عملدرآمد اور خطے بھر کے لیے امن و سلامتی کا حصول ممکن ہے۔

انہوں نے تمام رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 79ویں اجلاس کے اختتام سے قبل کانفرنس کی حتمی دستاویز کی منظوری دیں۔

کانفرنس کے پہلے روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے خبردار کیا تھا کہ اسرائیل۔فلسطین تنازع نازک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ دو ریاستی حل کو بچانے اور امن کو سبوتاژ کرنے کی منطم کوششوں کو روکنے کے لیے دلیرانہ سیاسی اقدامات کی ضرورت ہے۔

نیویارک اعلامیہ کے اہم نکات

کانفرنس کے اختتام پر جاری ہونے والی حتمی دستاویز میں ہر فریق کی جانب سے شہریوں کے خلاف ہر طرح کے حملوں کی مذمت کی گئی ہے جن میں دہشت گردی کے تمام واقعات، اندھا دھند حملے، شہری تنصیبات کے خلاف ہر طرح کی کارروائیاں، اشتعال انگیزی، تشدد کی ترغیب اور تباہی شامل ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے کہ شہریوں کو یرغمال بنانا بین الاقوامی قانون کے تحت ممنوع ہے۔

علاوہ ازیں، اس میں لوگوں کو ان کے علاقوں سے بیدخل کیے جانے سمیت فلسطینیوں کے علاقوں یا آبادی میں تبدیلیوں کے مقصد سے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کو مسترد کیا گیا ہے جو بین الاقوامی انسانی قانون کی کھلی پامالی کے زمرے میں آتے ہیں۔

اعلامیے میں حماس کی جانب سے 7 اکتوبر کو اسرائیلی شہریوں کے خلاف حملوں اور اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں اور شہری تنصیبات کو نشانہ بنائے جانے اور انسانی امداد کی فراہمی پر پابندیوں کی مذمت کی گئی ہے جس کے نتیجے میں غزہ کے لوگوں کو تباہ کن انسانی بحران درپیش ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ جنگ، قبضہ، دہشت گردی اور جبری گمشدگیاں امن و سلامتی نہیں لا سکتیں اور اس کا حصول صرف سیاسی طریقہ کار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

اعلامیہ کے مطابق، اسرائیل۔فلسطین تنازع کا خاتمہ اور دو ریاستی حل پر عملدرآمد ہی فلسطینیوں کی جائز خواہشات کی تکمیل کا واحد راستہ ہے۔ ہر طرح کے تشدد اور غیرریاستی عناصر کے تخریبی کرداروں کا خاتمہ، دہشت گردی کی روک تھام اسی کے ذریعے ہی ممکن ہے اور یہی راستہ دونوں طرف کے لوگوں کو سلامتی اور دونوں ریاستوں کو خودمختاری، امن، خوشحالی اور خطے کے ممالک سے بہتر تعلقات کی ضمانت دیتا ہے۔

اعلامیے میں فلسطینی مسئلے کو پر امن طور سے طے کرنے اور دو ریاستی حل پر عملدرآمد کے لیے ٹھوس، مخصوص وقت میں اور ناقابل واپسی اقدامات اور موثر طریقوں سے جلد از جلد ایک پرامن، آزاد، جمہوری، خودمختار اور معاشی اعتبار سے قابل عمل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششوں کا عزم کیا گیا ہے۔

*ورکنگ گروپ کے ارکان میں برازیل، مصر، انڈونیشیا، آئرلینڈ، جاپان، اٹلی، اردن، میکسیکو، ناروے، قطر، سینیگال، سپین، ترکی، برطانیہ، یورپی یونین اور عرب لیگ کے ممالک شامل ہیں۔