پاکستانی مارکیٹ میں سالانہ 45 لاکھ ٹن سے زائد کھلا خوردنی تیل فروخت ہونے کا انکشاف

پاکستان دنیا میں خوردنی تیل کا آٹھواں سب سے بڑا صارف ہے، جہاں فی کس سالانہ کھپت 22 کلوگرام ہے کھلا تیل بغیر مناسب پیکنگ ،لیبلنگ کے بڑی مقدار میں فروخت ،دل کے امراض، فالج اور دماغی امراض کا سبب بن سکتا ہے‘ ماہرین

اتوار 10 اگست 2025 11:40

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اگست2025ء)پاکستان میں ہر سال استعمال ہونے والے خوردنی تیل کا تقریباً 30 فیصد یعنی 45 لاکھ ٹن سے زائد بغیر برانڈ کا کھلا تیل ہوتا ہے جو زیادہ تر نیم شہری اور دیہی علاقوں میں دستیاب ہے جس سے لاکھوں لوگ سنگین صحت کے خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ کھلا تیل عام طور پر بغیر مناسب پیکنگ یا لیبلنگ کے بڑی مقدار میں فروخت ہوتا ہے اور اس میں اکثر مضر کیمیکلز، آلودگیاں اور حیاتیاتی جراثیم شامل ہوتے ہیں، ماہرین کے مطابق یہ سنگین بیماریوں، جیسے دل کے امراض، فالج اور دماغی امراض کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ مسئلہ حال ہی میں کینیڈین ادارے نیوٹریشن انٹرنیشنل کے زیر اہتمام خوردنی تیل کی ریگولیشن سے متعلق مشاورتی اجلاس میں اجاگر ہوا، این آئی کے نمائندے معین قریشی نے بتایا کہ پاکستان کی کم آمدنی والی آبادی کا 40 سے 45 فیصد حصہ اس غیر رسمی شعبے پر انحصار کرتا ہے۔

(جاری ہے)

این آئی کے ٹیکنیکل کنسلٹنٹ ڈاکٹر حسن عروج نے نشاندہی کی کہ سندھ میں کھلا تیل تیار کرنے والی 33 ملز موجود ہیںجن میں زیادہ تر کراچی میں ہیں، اس کے بعد حیدرآباد اور سکھر کا نمبر آتا ہے، بلوچستان میں صرف 2 ملز ہیں، جو زیادہ تر تیل سندھ سے لیتی ہیں جبکہ ایرانی اسمگل شدہ تیل بھی مقامی منڈی میں پہنچتا ہے۔

اتفاق رائے ہو چکا ہے کہ کھلے خوردنی تیل کی فروخت کو ریگولیٹری فریم ورک میں لایا جائے، جس میں سیل شدہ پیکنگ، لائسنسنگ اور ٹریس ایبلٹی لازم ہو۔ڈاکٹر حسن عروج نے وضاحت کی کہ ایرانی تیل 100 فیصد قابل استعمال ہے، جبکہ سندھ اور پنجاب کے نمونے صحت کے ٹیسٹ میں ناکام ہوئے ہیں۔پاکستان دنیا میں خوردنی تیل کا آٹھواں سب سے بڑا صارف ہے، جہاں فی کس سالانہ کھپت 22 کلوگرام ہے، برانڈڈ تیل سخت ریفائننگ عمل سے گزرتا ہے جس میں فلٹریشن، ڈیوڈورائزیشن اور نیوٹرلائزیشن شامل ہیں، جب کہ کھلا تیل اکثر بغیر ان حفاظتی مراحل کے تیار ہوتا ہے۔

یہ عام طور پر غیر جراثیم کش کنٹینرز میں ذخیرہ اور غیر صحت مند حالات میں منتقل کیا جاتا ہے، جس سے اس میں آلودگی اور آکسیڈیشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔کھلے اور برانڈڈ تیل کی قیمت میں واضح فرق ہے، کھلا تیل، جس میں وٹامن اے اور ڈی شامل نہیں ہوتے، 5 لیٹر کا ڈبہ ایک ہزار سے ایک ہزار 500 روپے میں ملتا ہے، جبکہ برانڈڈ تیل اسی مقدار میں تقریباً 2 ہزار 700 روپے کا ہوتا ہے۔

بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں کامیاب ریگولیٹری تبدیلیوں کی وجہ سے غیر رسمی تیل مارکیٹ کو حکومتی مداخلت کے ذریعے باضابطہ ریگولیٹری نظام میں لایا گیا۔پنجاب فوڈ اتھارٹی کی فرح اطہر نے تجویز دی کہ ایس ایف اے 3 ماہ کے عبوری عرصے کے بعد کھلے تیل کی فروخت پر پابندی لگائے، جب کہ چھوٹے فروخت کنندگان کو ریگولیٹڈ حالات میں کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے، انہوں نے قومی فوڈ سیفٹی معیارات پر عمل درآمد کے لیے لازمی لیبلنگ کے تقاضے بھی پیش کیے۔سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈاکٹر احمد علی شیخ نے نتیجہ اخذ کیا کہ حکومت کھلے تیل کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے پرعزم ہے اور فروخت کنندگان کو رجسٹریشن اور ریگولرائزیشن کے عمل میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔