پاکستان زیتون کے تیل میں خودکفالت کی جانب بتدریج پیشرفت کر رہا ہے، آئندہ سات برس میں اس کی برآمد شروع ہو جائے گی،ڈاکٹر محمد طارق

جمعہ 15 اگست 2025 17:39

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 اگست2025ء) پاکستان زیتون کے تیل میں خودکفالت کی جانب بتدریج پیشرفت کر رہا ہے اور آئندہ پانچ سے سات برس میں اس کی برآمدات کا ہدف رکھتا ہے۔ یہ بات وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے نیشنل پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد طارق نے ’’ویلتھ پاکستان‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں زیتون کی ویلیو چین میں عالمی سطح پر مسابقتی صلاحیت موجود ہے۔

اس وقت ملک سالانہ دو ارب روپے سے زائد مالیت کا زیتون کا تیل درآمد کرتا ہے جسے ملکی پیداوار کے ذریعے نمایاں طور پر کم کرنے کا ہدف ہے۔وہ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کے منصوبے’’پاکستان میں زیتون کی تجارتی پیمانے پر کاشت کے فروغ‘‘ کی قیادت کر رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ 2014ء میں شروع ہونے والے پاکستان کے زیتون کاشت پروگرام کے تحت قومی اور صوبائی منصوبوں کے ذریعے 60 اضلاع میں تقریباً 69 لاکھ زیتون کے پودے لگائے گئے ہیں جس میں 11 ہزار 400 سے زائد کاشتکار شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پبلک-پرائیویٹ پارٹنرشپ، بین الاقوامی اداروں اور فارم ٹو فورک حکمت عملی کی بدولت 5,594 ایکڑ پر جدید نرسری مینجمنٹ اور پائیدار آبپاشی نظام قائم کیے گئے ہیں۔ مزید برآں قومی، صوبائی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے ملک بھر میں 51 آئل ایکسٹریکشن یونٹس نصب کیے گئے ہیں۔منصوبے کے تحت بعد از برداشت ڈھانچے کو بھی سہارا دیا گیا ہے جن میں پھل پروسیسنگ سہولیات، موسمیاتی سٹیشنز اور معیار جانچنے کی لیبارٹریاں شامل ہیں۔

ڈاکٹر طارق کے مطابق ایک بڑی پیشرفت 2022ء میں سامنے آئی، جب پاکستان نے بحیرہ روم کے ممالک سے پودے درآمد کرنے کے بجائے ملکی سطح پر ان کی افزائش شروع کر دی جس سے بیرونی انحصار کم ہوا اور مقامی صلاحیت بڑھی۔ اس کے بعد 16 ہزار سے زائد سٹیک ہولڈرز کو باغبانی، تیل نکالنے اور استعداد کار بڑھانے کی تربیت دینے کے لیے 238 سے زائد تربیتی پروگرام منعقد کیے جا چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کوششوں کے مثبت نتائج سامنے آنے لگے ہیں اور پاکستانی زیتون کے تیل کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی مل رہی ہے۔ بلوچستان میں تیار ہونے والا’’ایل او – لورالائی اولیوز‘‘ 2025ء کے نیویارک ورلڈ اولیو آئل مقابلے میں سلور ایوارڈ جیت چکا ہے، جو دنیا کے معتبر ترین مقابلوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کو انٹرنیشنل اولیو کونسل میں مبصر کا درجہ بھی مل چکا ہے، جو عالمی زیتون صنعت میں مزید انضمام کی راہ ہموار کرے گا۔

ڈاکٹر طارق نے ویلتھ پاکستان کو بتایا کہ 2024ء میں 15.2 ارب ڈالر مالیت کی عالمی زیتون تیل مارکیٹ 2027 تک 18 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی جس کی بڑی وجہ صحت سے متعلق آگاہی اور میڈیٹیرینین غذا کی مقبولیت ہے۔ نامیاتی اور غذائی افادیت والے کھانوں کی بڑھتی طلب پاکستان جیسے ابھرتے ہوئے پیدا کنندگان کے لیے عالمی مارکیٹ میں جگہ بنانے کا سنہری موقع فراہم کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا’’زیتون انقلاب‘‘ بنجر زمینوں کو سنہری باغات میں بدل رہا ہے ، بلوچستان کے پہاڑی علاقے ہوں یا پنجاب کی زرخیز وادیاں، غیر استعمال شدہ زمین اب ایک پیداواری زرعی نظام میں تبدیل ہو رہی ہے جو ہزاروں روزگار کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔ڈاکٹر طارق نے بتایا کہ ملک میں 40 لاکھ ہیکٹر سے زائد زمین زیتون کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔

طویل المدتی اندازوں کے مطابق یہ شعبہ سالانہ 7.6 ارب روپے قومی معیشت میں شامل کر سکتا ہے۔ معاشی ماڈلز کے مطابق 2019ء سے 2023ء کے دوران زیتون کے تیل کی درآمدات میں 50 فیصد کمی اور برآمدات میں نمایاں اضافہ ممکن ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل اولیو پالیسی اور ایکشن پلان فی الحال زیرِ غور ہے تاکہ اس پیشرفت کو ادارہ جاتی شکل دی جا سکے۔ پاکستان کے زیتون کے شعبے میں کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آئی ہے، جو چند منصوبوں سے بڑھ کر اب ملک بھر میں 85 سے زائد سٹارٹ اپس تک پہنچ گئی ہیں۔

یہ کاروبار ایکسٹرا ورجن زیتون کا تیل، اچار، جیلی، کاسمیٹکس، صابن اور غذائی اجزاء پر مبنی مصنوعات تیار کر رہے ہیں، جو دیہی روزگار، زرعی کاروبار کی تنوع اور صارفین میں صحت سے متعلق آگاہی کو فروغ دے رہے ہیں۔ڈاکٹر طارق کے مطابق زیتون سے حاصل ہونے والی دیگر مصنوعات جیسے کاربن کریڈٹس، پامیس آئل اور بائی پروڈکٹس میں بھی خاطر خواہ صلاحیت موجود ہے جو کسانوں کی آمدنی میں مزید اضافہ کر سکتی ہے۔انہوں نے ماحولیاتی اور صحت کے فوائد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ زیتون کے درخت کاربن جذب کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ زیتون کے تیل کے بڑھتے استعمال سے قومی سطح پر صحت عامہ کے اخراجات میں کمی آ سکتی ہے۔\932