اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اگست2025ء)سینیٹ اجلاس کے دوران صنفی تشدد اور سیلاب کے دوران این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بحث کے دور ان اراکین نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں صنفی تشدد میں اضافہ ہورہا ہے، قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عمل درآمد نہیں ہورہا جبکہ سینیٹ اجلاس میں فوجداری قوانین ترمیمی بل 2024 سمیت مختلف بل منظور کرلیے گئے، اور سینیٹ اجلاس میں سیلاب سے جاں بحق ہونیو الوں کے دعائے مغفرت بھی کی گئی۔
پیر کو سینیٹ اجلاس چیئرمین سینیٹ سید یوسف رضا گیلانی کے زیرصدارت ہوا جس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمن نے ملک میں صنفی بنیادوں پر جاری تشدد کے واقعات میں خطرناک اضافے پر اجلاس میں تحریک پیش کی۔انہوں نے کہا کہ 480 جینڈر کیسز کے لیے عدالتیں قائم کی گئی ہیں، 21 ہزار سے زائد کیسز کا بیک لاگ ہے، کیا ہمارے ہاں خواتین کی زندگیوں کی اہمیت نہیں ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ 64 فیصد بریت کی رعایت ہے، یہ تو کھلی چھوٹ ہے کہ آپ کسی کو ماریں یا پھر جو کریں۔سیلاب کی صورتحال کے حوالے سے سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پاکستان کے 63 اضلاع اس وقت خوفناک سیلاب کی وجہ سے کشمکش میں ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر ہاؤس متفق ہو تو ایک ہفتہ کی تنخواہیں سینیٹرز عطیہ کردیں۔اس کے جواب میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ایک ہفتے کی کیوں مکمل ایک ماہ کی تنخواہیں عطیہ کر دیتے ہیں۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ آپ اس معاملہ میں اتفاق رائے پیدا کرلیں۔سینیٹر محسن عزیز نے صنفی تشدد کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معاشرے میں صنفی تشدد میں اضافہ ہورہا ہے، تعلیم اور آگاہی کی کمی سے واقعات ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات میں سزاؤں کی شرح کم ہے، موبائل فونز یا سوشل میڈیا بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے، سوشل میڈیا سے متعلق کچھ اقدامات کرنا ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ سزاؤں کی شرح میں کمی یا کیسز کے رپورٹ ہونے کی بڑی وجہ وڈیرا سسٹم بھی ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ معاشرے کو ایلیٹ کلاس نے کیپچر کرلیا ہے، قانون کی بالادستی یقینی بنا کر مسائل کم کرسکتے ہیں۔سیلابی صورتحال پر سینیٹ میں این ڈی ایم اے کی کارکردگی پر بحث کیدوران سینیٹر محسن عزیز نے بحث پر تحریک پیش کی۔انہوں نے کہا کہ سیلابی صورتحال میں وفاقی حکومت کی خاموشی چبھ رہی ہے، خیبرپختونخواہ میں سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے 1 ماہ کی تنخواہ دینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان کو دل کھول کر سیلابی متاثرین کی امداد کرنی چاہیے، پاکستان میں فلیش فلڈز کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 400 سے زیادہ لوگ سیلاب میں جاں بحق ہوگئے، لوگوں کی جان و مال کا نقصان ہوا اور انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ ایسی صورتحال میں کم سے کم نقصان کیلئے اقدمات اٹھانے چاہیئں، بلڈنگ کوڈز سمیت دیگر اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔
سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ قدرت کے ساتھ لڑائی نہیں لڑی جاسکتی، دریائی راستوں پر عمارتیں اور آبادیاں بنائی گئیں۔انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے کا احتساب نہیں ہوتا، سیلاب میں دی گئی امداد کا غلط استعمال ہوتا ہے۔سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ عالمی طور پر امداد کے وعدے پورے نہیں ہوتے یا وہ قرضہ کی شکل میں آتے ہیں، این ڈی ایم اے 20 سال پہلے بنا مگر اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ کے کئی علاقوں پر قبضہ ہوچکا ہے، نالہ لئی،کورنگی سمیت کئی نالوں پر قبضے ہوچکے ہیں، دریاؤں اور نالوں پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا جائے، اگر ان آپریشنز میں مقامی حکومتیں سپورٹ نہیں کرتیں تو فوج کو بلائیں۔سینیٹر علی ظفر نے صنفی تشدد سے متعلق بحث میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صنفی تشدد کے کیسز کو چھپایا جاتا ہے اس لئے یہ سلسلہ بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس قوانین تو بہت ہیں اصل ایشو سزا نہ ملنے کا ہے، پی ٹی آئی دور میں انسداد ریپ قانون بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ جب سزا نہیں ملتی تو ملزم سمجھتے ہیں ہمیں کوئی نہیں چھو سکتا، قانون عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قوانین پر علمدرآمد نہ ہونے کی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا،ہماری عدالتی نظام کلاکڈ اپ ہے ، اس معاملے کو پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ قانون بہت بنائے مگر عملدرآمد نہیں کیا جاتا، خواتین کو نوکری کا لالچ دے کر بیرون ملک بھیج کر جسم فروشی کروائی جاتی ہے، ڈارک ویب پر نازیبا تصاویر اور ویڈیو چڑھائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ لوگ عزت کے خوف سے قانون کی طرف نہیں جاتے، حساس کیسز میں ریاست کو خود سامنے آنا چاہیے، قوانین تو موجود ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ بچیوں کو بیرون ملک لے جاکر جسم فروشی کرائی جا رہی ہے، بچیوں کی اسمگلنگ قوم کے لیے باعث شرم ہے، اگر ان جرائم کو نہ روکا گیا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ مذہب بھی ایسے جرائم کی اجازت نہیں دیتا، خواجہ سراؤں کے ساتھ معاشرتی سلوک افسوسناک ہے، معاشرے میں خواجہ سراؤں کو انسان نہیں سمجھا جاتا۔انہوں نے کہا کہ ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو تضحیک آمیز ناموں سے پکارا جاتا ہے، معاشرے میں ٹرانسجینڈر کی تذلیل وقت کا المیہ ہے، وقت کا تقاضا ہے کہ ٹرانسجینڈر کے حقوق تسلیم کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کے ساتھ امتیازی رویے ختم کیے جائیں، ریاست کو ٹرانسجینڈر کے لیے عملی اقدامات اٹھانے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ تجاویز آئیں تو ہم سب ان کی حمایت کریں گے، ہم سب کو ٹرانسجینڈر اور خواتین کے تحفظ کے لیے متحد ہونا ہوگا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں تحریک پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو اعدادوشمار دیے گئے ہیں وہ بلاشبہ الارمنگ ہیں،ہمارا سسٹم اوور لیجسلیٹڈ ہے، قانون سازی احتیاط کے ساتھ کرنی چاہیے، جس موضوع پر بات ہورہی ہے، اس پر قوانین کی کمی نہیں ہے، معصوم لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بات ساری سزاؤں سے ہٹ کر مائنڈ سیٹ اور رویوں کی ہے، ایسے معاملات یا کیسز میں قوانین کی کوئی کمی نہیں، غیرت کے نام پر قتل پر کئی کیسز میں ملزمان کو رشتہ داروں نے معافیاں دیں۔وزیر قانون نے کہا کہ ایسے کیسز میں قانون سازی کی گئی کہ صلح کے باوجود اقدام کی سزا ملے گی، غیرت کے نام پر قتل کے واقعات کے گواہ وہی رشتہ دار ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی بھی کمی ہے، غیرت کے نام پر قتل کی اجازت تو شریعت میں نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گھریلو تشدد کا بل آیا تو صوبوں کی طرف سے اعتراض آیا، وفاقی دارالحکومت سے متعلق بل پر اعتراضات آئے۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مرد کی انا اتنی بڑی ہے کہ چھوٹی بات پر ڈنڈا اٹھا لینا ہے۔سینیٹ نے معاملہ متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔
اجلاس کے دور ان سینیٹر مرزا محمد آفریدی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر مفصل بات ہونی چاہیے، صوبے میں اس وقت پیسوں کی بھی کمی ہے، حکومت کو چاہییے اس پر توجہ دیں۔انہوں نے کہا کہ سینیٹرز کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ خیبر پختونخواہ صوبے میں آئیں اور وہاں کے حالات دیکھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سے درخواست ہے کہ صوبے کی عوام کی امداد کے لیے کام کیا جائے۔
سینیٹر روبینہ خالد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ماضی کیسیلابوں سے کیا سبق سیکھا انہوں نے کہا کہ ماضی میں مالاکنڈ ڈویژن میں بھی سیلاب آیا، سیاحت کے نام پر دریا کی زمینوں پر ہوٹلز بنائے گئے اور ان ہوٹلز کو این او سی دیے گئے۔انہوں نے کہا کہ قومی ایمرجنسی ڈیکلئیر کی جائے ہمارے بس کی بات نہیں۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کہتے ہیں درخت لگائے، شاید جڑی بوٹیاں تھی، اب ٹمبر مافیا جنگلات کاٹ رہا ہے۔
سینیٹر شہادت اعوان نے پبلک پریکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل 2023 ، فوجداری قوانین ترمیمی بل 2024 پیش، پاکستان کونسل برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ترمیمی بل 2023 پیش، پاکستان بیت المال ترمیمی بل 2024 اور ہائر ایجوکیشن کمیشن ترمیمی بل 2024کیا گیا، تمام بل متفقہ طور پر منظور کرلیے گئے۔سینیٹر فوزیہ ارشد نے کیپیٹل ٹریٹری بچوں کے روزگار کی ممانعت بل 2022 پیش بل پیش کیا جسے سینیٹ نے بل متفقہ طور پر منظور کرلیا۔
سینیٹ سے سوشل میڈیا کے استعمال کی عمر مقرر کرنے سے متعلق بل واپس لینے کی تحریک منظور کرلی گئی۔سینیٹ میں ثمینہ ممتاز زہری کے 3 بل ان کی درخواست پر موخر کردیے گئے، جبکہ سینیٹر ہدایت اللہ کی طرف سے پیش کیا گیا فاطمہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بل 2025 چیئرمین کمیٹی نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔