جنگوں میں جنسی استحصال بڑھتا جا رہا ہے، سلامتی کونسل میں بازگشت

یو این بدھ 20 اگست 2025 19:45

جنگوں میں جنسی استحصال بڑھتا جا رہا ہے، سلامتی کونسل میں بازگشت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 اگست 2025ء) جنگوں میں جنسی تشدد کا مسئلہ (سی آر ایس وی) تیزی سے بڑھ رہا ہے اور دنیا بھر میں خواتین اور لڑکیاں اس سے غیرمتناسب طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ گزشتہ سال مسلح تنازعات میں جنسی تشدد کے واقعات میں 25 فیصد اضافہ ہوا۔

اس مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ پرامیلا پیٹن نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ جنگوں سے متاثرہ ایسے علاقوں میں متاثرین کو مدد کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی جہاں ان کے لیے ضروری سہولیات تک رسائی دن بہ دن مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

Tweet URL

انہوں نے کہا کہ 2024 میں دوران جنگ جنسی تشدد کے 4,600 سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے تاہم یہ اعداد و شمار اصل تعداد سے کہیں کم ہیں اور ان سے صرف انہی واقعات کا اندازہ ہوتا ہے جن کی اقوام متحدہ نے تصدیق کی ہے۔

(جاری ہے)

کونسل کو اس مسئلے پر سیکرٹری جنرل کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایسے واقعات میں عمومی اضافے کے ساتھ گزشتہ سال بچوں کے خلاف جنسی تشدد میں بھی تشویشناک طور پر 35 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں بعض متاثرین کی عمر محض ایک سال تھی۔

یہ رپورٹ 21 جگہوں پر تشویش ناک حالات کا احاطہ کرتی ہے جس کے مطابق جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات وسطی افریقی جمہوریہ، کانگو، ہیٹی، صومالیہ اور جنوبی سوڈان میں ریکارڈ کیے گئے۔

مزید برآں، لیبیا اور مقبوضہ فلسطینی علاقے کو بھی اس مسئلے سے متاثرہ علاقوں کی نئی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

خطرناک رجحانات

پرامیلا پیٹن نے کونسل کو بتایا کہ بے گھر اور پناہ گزین خواتین اور لڑکیوں کو جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات کا سامنا ہے جو ان کی اپنے علاقوں میں محفوظ واپسی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

خوراک کی عدم دستیابی بھی جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا دیتی ہے۔

جب متحارب فریقین انسانی امداد کی رسائی کو محدود کرتے ہیں تو یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، مسلح گروہ جنسی تشدد کو علاقوں اور قدرتی وسائل پر اپنا تسلط مضبوط کرنے اور جنگجوؤں کی بھرتی کی ترغیب کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جنسی تشدد دنیا بھر میں رسمی اور غیر رسمی حراستی مراکز میں بھی جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی امن کارروائیوں کے لیے مالی وسائل کی کمی کے باعث متاثرین تک رسائی اور ان کی مدد کی صلاحیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

UN Photo/Eskinder Debebe

امدادی وسائل کی قلت

انہوں نے بتایا کہ صرف 24 گھنٹوں میں ہی عالمگیر عسکری اخراجات دوران جنگ جنسی تشدد کو روکنے کے لیے مختص سالانہ بجٹ سے تجاوز کر جاتے ہیں۔

اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے وسائل کی ضرورت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو وسائل کی شدید کمی کا سامنا ہے جن میں بعض اب بند ہونے کو ہیں۔

امدادی وسائل میں کٹوتیوں کے باعث دنیا بھر میں اس تشدد سے متاثرہ افراد کے لیے پناہ گاہیں بھی بند ہو رہی ہیں، جنسی زیادتی کا شکار افراد کے لیے طبی سامان ختم ہو چکا ہے اور کلینک ختم کیے جا رہے ہیں۔

سوڈان، یوکرین، ایتھوپیا اور غزہ جیسے جنگ زدہ علاقوں میں طبی نظام تباہ ہو چکے ہیں اور امدادی ادارے کم سے کم وسائل میں زیادہ کام کرنے پر مجبور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امن کے لیے کام کرنے والے اداروں کو مالی وسائل مہیا کرنا ہوں گے اور سلامتی کے لیے قانون کی حکمرانی کو دوبارہ مستحکم کرنا اور ایسے عناصر کو جوابدہ بنانا ہوگا جو اس تشدد کے ارتکاب، اس کے احکامات دینے یا اس کی حمایت میں ملوث ہیں۔

مسئلے کا حل

پرامیلا پیٹن نے کہا کہ انہیں سونپی گئی ذمہ داریوں کے تحت تین محاذوں پر کام کیا جا رہا ہے جن میں قوانین پر عملدرآمد کو فروغ دینا، خدمات کی فراہمی میں بہتری لانا اور جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی یقینی بنانا شامل ہیں۔

'جنگوں میں جنسی تشدد کے خلاف اقوام متحدہ کے اقدام' کے تحت اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے نمایاں کام ہوا ہے اور مسلح تنازعات سے دوچار 18 علاقوں میں ہزاروں متاثرین کو مدد فراہم کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ خدمات کی ضرورت دستیاب وسائل سے کہیں زیادہ ہے۔ اگر اس مسئلے کی روک تھام کے لیے سرمایہ کاری کو برقرار نہ رکھا گیا، اصولوں سے پہلو تہی کی گئی یا اس مسئلے سے نمٹںے کے موجودہ نظام کو کمزور کیا گیا تو یہ ناصرف متاثرین سے غداری کے مترادف ہو گا بلکہ اس سے مجرموں کی حوصلہ افزائی بھی ہو گی۔