اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اگست 2025ء) دینی تعلیمات میں ماں کے دودھ کو بچے کے ابتدائی سالوں میں سب سے اہم غذا قرار دیا گیا ہے اور جدید سائنس بھی اسے بیماریوں سے بچاؤ، ذہنی نشوونما اور جذباتی تعلق کے لیے ناگزیرمانتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اہمیت کو جاننے کے باوجود ہم نے اپنے معاشرے میں خواتین کے لیے اپنے بچوں کو دودھ پلانے کو جتنا مشکل بنا رکھا ہے، شاید دنیا کے کئی معاشروں میں اس کی مثال نہ ملے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق پاکستان میں چھ ماہ کی عمر تک مکمل طور پر ماں کے دودھ پر پلنے والے بچوں کی شرح صرف 48 فیصد ہے، جبکہ 2030 تک عالمی ہدف 60 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ ناکافی دودھ پلانے کے باعث پاکستان کو ہر سال تقریباً 2.8 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے، جس میں 33,700 بچوں کی اموات، 6.6 ملین ڈائریا کے کیسز اور 2.7 ملین کے تعلیمی سال کا ضائع ہونا شامل ہے۔
(جاری ہے)
دودھ پلانے کی یہ کم شرح صرف معاشی یا جسمانی وجوہات کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ سماجی رویے بھی اس میں گہرا کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان میں کسی سرکاری دفاتر، شاپنگ مالز، پارکس یا کسی بھی عوامی مقام پر ماؤں کے لیے ایسا محفوظ اور نجی گوشہ ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے جہاں وہ سکون سے اپنے بچے کو دودھ پلا سکیں۔
اگر کوئی ماں ہمت کر کے ایسا کرتی بھی ہے تو اردگرد کے لوگوں کی نگاہیں، طنزیہ تبصرے اور غیر ضروری تجسس اس عمل کو ایک سماجی جرم بنا دیتے ہیں۔گھر کے اندر بھی صورتحال زیادہ مختلف نہیں بلکہ روایتی جوائنٹ فیملی سسٹم میں پرائیویسی کی کمی، گھر کے مردوں کی آمد و رفت، اور یہ سوچ کہ براہ راست دودھ پلانا "بے پردگی" ہے، ماؤں کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ دن کے وقت بچے کو بوتل پر لگا دیں۔
اس کا نتیجہ بچے کی صحت پر منفی اثرات اور ماں کے جسمانی و ذہنی دباؤ کی صورت میں نکلتا ہے۔سندھ اسمبلی نے حال ہی میں سندھ پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن ایکٹ نافذ کیا ہے، جس کے تحت ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر فارمولا دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کی گئی ہے، اور پیکنگ پر "مصنوعی دودھ" کا لیبل لگانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا گیا ہے۔دنیا کے کئی ممالک نے دودھ پلانے میں رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔ آسٹریلیا، کینیڈا اور ناروے میں دفاتر میں "لیکٹیشن رومز" لازمی قرار دیے گئے ہیں، اور یورپی ممالک میں ماؤں کو مکمل ادائیگی کے ساتھ طویل میٹرنٹی لیو فراہم کی جاتی ہے۔
پاکستان میں بھی کچھ مثبت مثالیں موجود ہیں، جیسے یونیسف کی مدد سے کراچی ایئرپورٹ پر جدید بریسٹ فیڈنگ کیبن کا قیام، تاکہ سفر کرنے والی ماؤں کو پرائیویسی اور سہولت مل سکے۔ پاکستان جو پچھلے کچھ سالوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کا شدید شکار ہے اور شدید سیلاب جہاں باقی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں وہی مائیں اور نوزائیدہ بچے بڑے متاثرین میں سے ہیں۔ اندرون ملک ہجرت، کم خوراک اور صحت کے مسائل ماں اور بچے کے اس مضبوط تعلق میں خلل کا باعث بن رہے ہیں۔انٹرنیشنل بریسٹ فیڈنگ ویک اس بات کی یادہانی کے لیے منایا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ پلانا ایک فطری، صحت مند اور بچے کا بنیادی حق ہے، مگر پاکستان میں یہ حق معاشرتی رویوں، جوائنٹ فیملی کی حدود اور پبلک اسپیس کی کمی کی نذر ہو جاتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ کتابوں کے بڑے بڑے سٹورز ہوں، ریسٹورنٹ یا پھر شاپنگ مال جیسے ہی کسی ماں کو بچے کو دودھ پلاتا دیکھیں تو بجائے اس شرمندگی کہ وہ ایسی کوئی محفوظ جگہ نہیں بنا پائے، ماں سے اس جگہ سے جانے کو کہتے ہیں گویا یہ فرض اور ضرورت نہیں کوئی فیشن یا بے حیائی ہو۔ ملکی سطح پر جب تک ماؤں کے لیے بچوں کو دودھ پلانے کو عزت کی نگاہ و مقام نہیں دیا جائے گا تب تک معاشرتی سطح پر رویوں کا بدلنا نا ممکن ہے۔ اب شاید یہ وقت کی اہم ضرورت بن گی ہے کہ ہم اپنی سوچ، قوانین اور سہولتوں میں ایسی تبدیلی لائیں جو ماں کو عزت اور سہولت کے ساتھ یہ حق ادا کرنے کا موقع دے۔ یہ صرف ایک ماں کا مسئلہ نہیں بلکہ آنے والی نسل کی صحت، ذہانت اور وقار کا سوال ہے۔مذہب اور سائنس دونوں ماں کے دودھ کی اہمیت پر متفق ہیں، مگر پاکستان میں معاشرتی رویے، مشترکہ خاندانی نظام اور بنیادی سہولیات کی کمی ماؤں کے لیے بریسٹ فیڈنگ کو ایک چیلنج بنا دیتے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے