بی جے پی کے دور حکومت میںبھارت اقلیتوں کیلئے خطرناک ملک بن چکا ہے، رپورٹ

اتوار 7 ستمبر 2025 18:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 ستمبر2025ء)بی جے پی کے دور حکومت میں ہندوتوا بھارت اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک ملک بن چکا ہے جنہیں بی جے پی، آر ایس ایس ، وی ایچ پی اوردیگرہندو انتہاپسندتنظیموں کے کارکن مسلسل حملوں اور تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کشمیرمیڈیاسروس کے مطابق معروف کشمیری صحافی رئیس میر کی طرف سے آج جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں پر ظلم و ستم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ان پر حملے کئے جارہے ہیں اورر ہراساں کیا جارہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ملک میں ہندوتوا کی بالادستی کو فروغ دے رہی ہے اور زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں سمیت اقلیتوںکے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اسلامو فوبیا نے انتہائی مہلک شکل اختیار کر لی ہے اور ہندوتوا رہنما کھلے عام مسلمانوں کے قتل عام اور ان کے خلاف ہتھیاروں کے استعمال کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ ماہرین نے بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں مسلمانوں پر بڑھتے ہوئے حملے اور ان کی املاک، زمینوں، اسکولوں، مساجد ، خانقاہوں اورمزارات پر قبضہ عالمی برادری کے لیے ایک چیلنج ہے اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔بی جے پی حکومت نے 2014سے علمائے کرام، سیاسی رہنمائوں، کارکنان اور طلبا ء سمیت ہزاروں مسلمانوں کو کالے قوانین کے تحت سیاسی انتقام کی بنیاد پرگرفتارکرلیا ہے۔

بی جے پی حکومت بھارت میں اقلیتوں کے خلاف پولیس اور این آئی اے سمیت مختلف ایجنسیوں کو استعمال کر رہی ہے جبکہ بھارتی فوجی اسٹیبلشمنٹ اب آرمی ٹریننگ سکولوں میں آر ایس ایس کے ہندوتوا نظریے کو فروغ دے رہی ہے۔راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ جیسی تنظیموں کوبھارتیہ جنتا پارٹی جیسی سیاسی جماعتوں کے ذریعہ فروغ دیا جارہا ہے تاکہ بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کیا جائے ،مسلمانوں اورعیسائیوں سمیت اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری قراردیاجائے اور ملک کی تاریخ، ثقافت، قانون سازی اسمبلیوں اور انتظامیہ میں ہندو توا کے بیانیہ کو فروغ دیا جائے۔

راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے بہار کے علاقے مظفر پور میں تنظیم کے ایک اجلاس میں 1962میں چین کے ساتھ جنگ کو یاد کرتے ہوئے دعوی کیا کہ یہ آر ایس ایس کے رضاکار تھے جو فوج کے وہاں پہنچنے تک ملک کا دفاع کرتے رہے۔ بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان کی ایک نئی کتاب’’ریڈی، ریلیونٹ اینڈری سرجنٹ‘‘نے بھارتی فوج کے روایتی غیر سیاسی موقف اور ہندوتوا کے سیاسی نظریے کے ساتھ اس کے تعلق پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

یہ کتاب جس میں فوجی اصلاحات اور جدید کاری کے وژن کا خاکہ پیش کیا گیا ہے، کچھ لوگوں کی طرف سے مسلح افواج کے اندر آر ایس ایس ۔ بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کو فروغ دینے پر تنقید کی زد میںہے۔دی وائر اور دیگر اداروں نے کتاب کا تجزہ کرتے ہوئے کہاہے کہ جنرل چوہان کا کام کوئی غیر جانبدار فوجی مشاہد نہیں بلکہ حکمرانوں کے نظریے کاعکاس ہے۔ کتاب میں فوج، سیاسی اشرافیہ اور عوام کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی کی حمایت کی گئی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فوجی پیشہ ورانہ مہارت اور سیاسی صف بندی کے درمیان لائن کو دھندلا دیتا ہے، جو مسلح افواج کی تاریخی غیرجانبداری سے ایک الگ چیزہے۔تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب میںقدیم ہندوستانی حکمت پر زور دیا گیا ہے اور دہشت گردی کو اسلامی جنگی حکمت عملی سے جوڑنے کے ہندوتوا نظریے کی عکاسی ہے جسے راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کی حمایت حاصل ہے۔

جنرل چوہان کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی فوج نے ہندوتوا کے منصوبوں پر عملد رآمد شروع کردیا ہے۔رپورٹ میں کہاگیا کہ فرقہ پرستی، نفرت اور خوف کی پالیسیوں کی وجہ سے حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی بھارت میں اپنی سیاسی ساکھ کھو چکی ہے۔دوسری طرف بی جے پی حکومت نے فوجی طاقت کے استعمال، کالے قوانین، کرفیو اور غیر قانونی طریقے سے کشمیریوں کے آئینی حق دفعہ370اور 35Aکو چھین لیا ہے اور بغیر کسی جواز کے 800سے زائد قوانین علاقے پر مسلط کردیے ہیں۔