عدالتی اصلاحات کی بدولت زیر التوا مقدمات کے بیک لاگ میں کمی ہوئی ،چیف جسٹس آف پاکستان کا جوڈیشل کانفرنس سے خطاب
پیر 8 ستمبر 2025 13:38
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 08 ستمبر2025ء) چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے کہاہے کہ عدالتی اصلاحات ، شفافیت اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بروقت انصاف کی فراہمی اولین ترجیح ہے ، دور حاضر میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال ناگزیر ہے ،عدالتی اصلاحات کی بدولت زیر التوا مقدمات کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو سپریم کورٹ میں سالانہ چھٹیوں کے بعد نئے عدالتی سال کے موقع پر منعقدہ جوڈیشل کانفرنس کی سربراہی کرتے ہوئے کیا ۔ کانفرنس میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے ججز کے ساتھ ساتھ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے عہدے داران نے شرکت کی۔چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس روایت کا آغاز 1970 کی دہائی میں ہوا تھا جبکہ 2004 سے اسے باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ یہ موقع ہے کہ عدلیہ اپنی کارکردگی کا جائزہ لے اور آنے والے سال کے اہداف طے کرے۔عدالتی اصلاحات کے حوالے سے چیف جسٹس نے بتایاکہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اصلاحات کی ضرورت محسوس کی اور 5 نکات پر مبنی اصلاحاتی عمل شروع کیا گیا، سپریم کورٹ میں ڈیجیٹل فائلنگ اور ای سروسز کا آغاز ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ نظامِ انصاف میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہونا چاہیے لیکن ہم فی الحال اس کے لیے مکمل طور پر تیار نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ 61 ہزار فائلیں ڈیجیٹلی سکین کی جائیں گی اور یہ پراجیکٹ 6 ماہ میں مکمل ہوگا۔ مقدمات کی فہرست بندی (فکسنگ) مستقبل میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس ( مصنوعی ذہانت ) کے ذریعے کی جائے گی اور ڈیجیٹل سکین پراجیکٹ کی کامیابی کے بعد عدالت میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا باقاعدہ استعمال شروع ہوگا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ شفافیت کے لیے اندرونی آڈٹ کا عمل بھی شروع کیا جا چکا ہے تاکہ ادارے کی کارکردگی مزید بہتر بنائی جا سکے، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف 64 شکایات کا فیصلہ ہو چکا، 72 شکایات رائے کے لیے ممبرز کو دی گئی ہیں، رواں ماہ کے آخر تک سپریم جوڈیشل کونسل کی میٹنگ ہو گی اور باقی 65 کیسز بھی ججز کو دے دیے جائیں گے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے واضح کیا کہ ان کے ساتھ سکیورٹی کی 9 گاڑیاں تعینات تھیں تاہم انہوں نے سکیورٹی کم کرکے صرف 2 گاڑیوں تک محدودکردی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ چونکہ ریڈ زون میں عدالت اور رہائش واقع ہے، اس لیے اتنی زیادہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں تھی ۔ میرے اور ججز کے ساتھ سکیورٹی میں کمی کی گئی ہے تاہم اسلام آباد سے باہر جانے پر ججز کو سکیورٹی کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن ریڈزون میں اتنی نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں ججز کی چھٹیوں کے حوالے سے واضح طریقہ کار موجود ہے۔ عدالتی تعطیلات کے دوران ججز کو کسی قسم کی اجازت درکار نہیں ہوتی، تاہم عام تعطیلات کے علاوہ اگر کوئی جج چھٹی لینا چاہے تو اس بارے میں بتانا لازمی ہوگا۔جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ عدلیہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ عوام کو فوری انصاف فراہم کیا جائے، آئین اور قانون کی پاسداری شفافیت کو یقینی بناتی ہے اور قانون کے تقاضوں کو پورا کرنا آئین کی اصل خوبصورتی ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال کی نسبت زیر التواء مقدمات میں کمی آئی ہے جس پرسپریم کورٹ کے ججز و افسران تعریف کے مستحق ہیں۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ آئین سے متعلق کیسز کے لیے خصوصی بینچ تشکیل دیے گئے ہیں اور عدالت کو چاہیے کہ ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجنس) سے بھی فائدہ اٹھائے۔ تقریب سے صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رؤف عطا نے بھی خطاب کیا اور کہاکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ میں نئی سوچ اور جدید اصلاحات متعارف کرائیں۔ الیکٹرانک فائلنگ، وڈیو لنک سہولت اور فیسیلی ٹیشن سینٹر کا قیام ایک بڑی کامیابی ہے جبکہ عدالت نے موسم گرما کی تعطیلات میں بھی مقدمات کی سماعت جاری رکھی۔رؤف عطا نے وکلا برادری کی جانب سے کورٹ فیس میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عدالت فیس زیادہ ہوگی تو عام اور غریب شہری کے لیے انصاف کا حصول مشکل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے ہمیشہ آئین کو سربلند رکھا ہے اور جب بھی ایسا ہوا ہے قوم کا سر فخر سے بلند ہوا ہے ۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل طاہر نصر اللہ وڑائچ نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بطور چیئرمین لا اینڈ جسٹس کمیشن چاروں صوبوں، دوردرازعلاقوں کی ضلعی عدالتوں، بارایسوسی ایشن میں انٹرنیٹ کی سہولت، سولرائزیشن کو اپنی ترجیح میں رکھا۔طاہر نصراللہ وڑائچ نے کہا کہ وکلا برادی چیف جسٹس آف پاکستان کو خراج تحسین کرتی ہے، انصاف کی فراہمی میں شفافیت سے صحت مند معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔\932