اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 ستمبر 2025ء) آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین نگورنو کاراباخ کے متنازعہ علاقے کی وجہ سے ہونے والی جھڑپوں کے بعد باکو اور یریوان کے مابین اگست کے اوائل میں واشنگٹن میں امریکی صدر ٹرمپ کی موجودگی میں جس امن منعاہدے پر دستخط کیے گئے، اس کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین بین الاقوامی سرحد کے تعین کا عمل اب تیزی سے حقیقت بنتا جا رہا ہے۔
اس معاہدے پر آذربائیجان کے صدر الہام علییف اور آرمینیا کے سربراہ حکومت نکول پاشینیان نے دستخط کیے تھے اور اس کے تحت دونوں ممالک کے مابین آمد و رفت کے لیے زمینی راستے بھی کھولے جائیں گے۔ ڈی ڈبلیو کے ایک رپورٹر نے آرمینیا میں ایک ایسی جگہ کا دورہ کیا، جہاں آذربائیجان کے ساتھ سرحد کے وہاں سے گزرنے والے حصے کا تعین ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
تبدیلیوں کی علامت بن جانے والا گاؤں
آذربائیجان کے ساتھ سرحد سے متصل اور شمال مشرقی آرمینیا میں تاوُوش نامی صوبے کے گاؤں کیرانتس کا نام بہت سے لوگوں نے پہلی بار 2024ء میں سنا تھا۔ تب سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پہلی مرتبہ، اور آپس میں پہلے 1990ء کی دہائی کے اوائل میں اور پھر 2020ء میں نگورنو کاراباخ کے علاقے کی ملکیت کے تنازعے کی وجہ سے دو بڑی جنگیں لڑ چکنے کے بعد دونوں حریف ہمسایہ ممالک نے اپنی مشترکہ سرحد کے تعین کا عمل شروع کیا تھا۔
اس باہمی سرحد کے تعین کی بنیاد سوویت یونین کے دور کے نقشوں کو بنایا گیا تھا اور یوں آرمینیا کے گاؤں کیرانتس کا ایک حصہ آذربائیجان کا علاقہ قرار دے دیا گیا۔اب اس منقسم گاؤں میں زندگی جنگ کے بعد کے دور اور اس میں آنے والی بڑی تبدیلیوں کی علامت بن چکی ہے۔ اس گاؤں کی تقسیم کی وجہ سے آرمینیا کو ایک داخلی سیاسی بحران کا سامنا بھی کرنا پڑا اور وہاں وسیع تر عوامی مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے۔
مظاہرین آرمینیا کے ریاستی علاقے کو ''یکطرفہ طور پر آذربائیجان کے حوالے کر دینے‘‘ کے خلاف تھے اور ملکی وزیر اعظم پاشینیان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے، جو ان کے بقول آرمینیا کا ریاستی علاقہ باکو کو دے دینے کے مرتکب ہوئے تھے۔ لیکن ان مظاہروں کے باوجود دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین سرحد کے حتمی تعین کا عمل ابھی تک جاری ہے۔’ہم نے اپنا وطن کھو دیا‘
کیرانتس کے باشندوں کی کوشش ہے کہ وہ خود کو اپنے گاؤں کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھال لیں۔ اس گاؤں کے ان مکانات، جو اب آذربائیجان کے ریاستی علاقے میں ہیں، کے مالکان کا یریوان حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ انہیں تلافی رقوم ادا کرے۔ اس گاؤں سے گزرنے والی اس سڑک پر، جو آرمینیا سے جارجیا کی طرف جاتی ہے، اب ایک ایسی سرحدی دیوار تعمیر ہو چکی ہے، جس کا مقصد حفاظت ہے۔
لیکن اگر یہ دیوار واقعی کوئی حفاظتی تعمیراتی ڈھانچہ ثابت ہو گی، تو ایسا صرف نفسیاتی طور پر ہی ہو سکے گا۔اس دیوار سے محض چند گز کے فاصلے پر ایک ایسا اسکول بھی ہے، جس کا منصوبہ 2019ء میں منظور ہوا تھا اور جو جنگ کے بعد کھولا گیا تھا۔ ڈی ڈبلیو نے جب اس اسکول کے سربراہ ولادیمیر بابینجان سے گفتگو کی، تو انہوں نے کہا کہ نئی تعمیر کردہ سرحدی دیوار اسکول سے اتنی قریب ہے کہ بچے اگر فٹ بال کھیل رہے ہوں، تو بال آسانی سے آذربائیجان کے ریاستی علاقے میں جا سکتا ہے۔
اس گاؤں کے بہت سے آرمینیائی باشندوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ ان سے ان کے آبائی علاقے کے طور پر ان کا ''وطن چھین لیا‘‘ گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب اسی گاؤں میں ان کے لیے اپنی کئی چراگاہوں اور اپنے کھیتوں تک رسائی بھی ممکن نہیں رہی۔
گھروں کے پاس خار دار تاروں والی سرحدی دیوار
کیرانتس کے کئی باشندوں نے اس بارے میں دکھ سے کہا کہ نئی تعمیر کردہ سرحدی دیوار، اور اس پر لگائی گئی خار دار تار، اب اس گاؤں میں ان کے گھروں کے بالکل قریب سے گزرتی ہیں۔
اس کے علاوہ انہیں اس بات پر بھی دکھ ہے کہ وہی آذبائیجان، جس کے ساتھ نگورنو کاراباخ کے تنازعے کی وجہ سے آرمینیا نے جنگیں لڑیں، اسی حریف ملک کا قومی پرچم اب ان کے گاؤں میں لہرا رہا ہوتا ہے۔اس گاؤں کے ایک باشندے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جیسا کہ آرمینیائی حکام کہتے ہیں، ہم اپنی املاک سے محروم ہو گئے۔ لیکن یہ محرومی صرف املاک سے ہی نہیں، ہم نے تو اپنا وہ آبائی علاقہ بھی کھو دیا، جو ہماری پہچان تھا۔
‘‘امن کے باوجود شبہات باقی
اس بات کو اب تک ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے کہ دونوں ممالک کے ایک مشترکہ کمیشن نے باہمی سرحد کے نئے سرے سے تعین کا کام شروع کیا تھا۔ لیکن ابھی تک مشترکہ سرحد کے صرف ایک حصے کا ہی تعین کیا جا سکا ہے۔
دونوں ممالک کے ریاستی اداروں کے مطابق آرمینیا اور آذربائیجان کی مشترکہ سرحد کا مجموعی طور پر تقریباﹰ ایک ہزار کلومیٹر طویل علاقے پر تعین کیا جانا ہے۔
اب تک یہ تعین صرف 11.7 کلومیٹر طویل علاقے پر ہی کیا جا سکا ہے۔آرمینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ جس علاقے میں دونوں ہمسایہ ممالک کی مشترکہ سرحد کا تعین ہو چکا ہے، وہاں ماضی قریب میں پائی جانے والی کشیدگی اب بہت کم ہو چکی ہے۔ حالات میں اس بہتری کی متعلقہ علاقے کے باشندے بھی تصدیق کرتے ہیں۔
اب طے شدہ سرحدی علاقے میں ماضی کی طرح ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹیں پہنے دونوں ممالک کے فوجی حفاظتی خدمات انجام نہیں دیتے، بلکہ مشترکہ سرحد کی نگرانی کا کام دونوں طرف کے بارڈر گارڈز کرتے ہیں۔
اس علاقے کے کئی باشندوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب تک تو ان سرحدی علاقوں میں سکون ہے، جہاں مشترکہ سرحد کا تعین ہو چکا ہے، ''لیکن اہم بات تو یہ بھی ہے کہ آیا یہی سکون اور امن مستقبل میں بھی قائم رہیں گے؟
ادارت: عاطف توقیر