اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 ستمبر 2025ء) بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی جانب سے پاکستان میں حالیہ سیلابوں سے وسیع جانی نقصان پر گہرے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس ادارے نے یہ بھی کہا کہ امسالہ 'ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ کے تحت اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا موجودہ مالیاتی پالیسیاں اور ہنگامی اقدامات مؤثر طریقے سے موسمیاتی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ بیان پاکستان میں آئی ایم ایف کے نمائندے ماہر بینیجی نے دیا۔ماہر بینیجی نے کہا، ''مشن اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا آئندہ سال کے بجٹ میں مختص اخراجات اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے مختص کردہ فنڈز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔‘‘
مقامی میڈیا کے مطابق حکومت نے ملک بھر میں سیلاب متاثرین کو ریلیف دینے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کر رکھا ہے۔
(جاری ہے)
پاکستان کی نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق مون سون کی شدید بارشوں اور سیلابوں سے جون کے اواخر سے لے کر اب تک 972 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیلاب سے صوبہ پنجاب میں فصلیں اور لوگوں کے مکانات تباہ ہوئے اور اب پانی کا بہاؤ سندھ کی جانب ہے، جہاں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ اور دیگر مسائل بڑھ رہے ہیں۔ سن 2022 کے تباہ کن سیلابوں نے سب سے زیادہ تباہی سندھ میں مچائی تھی۔ تب موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب آنے والے سیلابوں سے ملک بھر میں 1,739 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔پاکستان میں پالیسی ساز پہلے ہی سست روی کی شکار معیشت کو حالیہ سیلابوں سے ہونے والے زرعی نقصانات کا تخمینہ لگا رہے ہیں۔
اندازوں کے مطابق اقتصادی ترقی کی شرح میں 0.2 فیصد تک کی کمی کا خدشہ ہے۔ اسی لیے ملک کا مرکزی بینک امکاناً مرکزی شرح سود موجودہ گیارہ فیصد ہی رکھے گا۔انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اس سال مئی میں پاکستان کے لیے 1.4 بلین ڈالر کے ایک پیکج کی منظوری دی تھی، جس کا مقصد معیشت کو موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کے اثرات سے نمٹنے کے قابل بنانا تھا۔ فنڈز کا اجراء منظور شدہ منصوبوں کی کامیاب تکمیل اور جائزوں کے بعد عمل میں آتا ہے۔
عاصم سلیم، روئٹرز اور مقامی میڈیا کے ساتھ
ادارت: مقبول ملک