اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 ستمبر 2025ء) حال ہی میں چین میں منعقد شنگھائی کانفرنس منعقد ہوا جس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو سوشل میڈیا پر ایک تصویر میں چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ دیکھا گیا۔ مودی کا چین کا حالیہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
اس کے پس منظر بھارتی مصنوعات پر امریکہ کی جانب سے پچاس فیصد تک ٹیکس کا لاگو ہونا ہے۔ بھارت کا چین میں ہونے والے اجلاس میں شرکت کرنا اور چینی اور روسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کرنا دنیا کے لیے ایک مضبوط علامتی پیغام تھا کہ بھارت ایک بار پھر طاقتور ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔یاد رہے کہ ماضی میں میں چین اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپوں ہوئیں جن کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کئی سالوں تک کشیدہ رہے تھے مگر بھارت نے حالیہ مہینوں میں چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔
(جاری ہے)
بھارتی ماہرین کا چین اور روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ سب امریکہ سے دوری اختیار کرنے کے لیے نہیں بلکہ مختلف عالمی طاقتوں کے دباؤ کو بیلنس کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ بھارت کی سابق سفیر میرا شنکر کا کہنا ہے کہ بھارت ایک غیر یقینی صورتحال میں 'کثیرالسمتی پالیسی اور اسٹریٹجک خودمختاری‘ پر عمل کر رہا ہے۔
ان کے مطابق امریکہ کی جانب سے بھارت پر بھاری محصولات اور روسی تیل پر جرمانے نے نئی دہلی کو مجبور کیا ہے کہ وہ بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات دوبارہ متوازن کرے۔چین اور روس کے ساتھ تعلقات
میرا شنکر کے مطابق بھارت دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو متوازن رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت نہ تو امریکہ سے لڑنا چاہتا ہے اور نہ ہی ہار ماننا، بلکہ خودمختاری سے اپنی بین الاقوامی پالیسیوں کے فیصلے کرنا اور اپنے مفادات کا تحفظ کرنا چاہتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور بھارت کا رشتہ خاص ہے اور تعلقات میں کبھی کبھار اختلافات آنا عام بات ہے اور وہ مودی کو ایک عظیم رہنما اور دوست مانتے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں اس وقت بھارت کے کچھ اقدامات ناپسند تھے جس کی وجہ سے ان کی بھارت کی طرف پالیسی میں وقتی طور پر تبدیلی آئی ہے مگر اس میں بھارت لے لیے کوئی فکر کی بات نہیں۔
جبکہ دوسری جانب بھارتی وزیر اعظم، مودی نے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر ایک تحریر میں جواب کے طور پر لکھا کہ وہ صدر ٹرمپ کے بھارت کی طرف مثبت جذبات کی قدر کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے تعلقات کو مستقبل میں آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔جواہر لال نہرو ینورسٹی کے پروفیسر امیتابھ مٹو کے مطابق بھارت کا چین اور روس کے ساتھ تعلق کو اندھی وفا داری سمجھنا بڑی غلطی ہو گی، ان کے مطابق یہ ایک ''اسٹریٹجک توازن‘‘ ہے جسے بھارت بڑی مہارت سے استعمال کر رہا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے جس میں نہ تو وہ نہ چین کے دباؤ میں آ رہا ہے اور نہ ہی امریکہ کو چھوڑ رہا ہے اور اپنی آزادی اور ملکی مفادات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔کیا بھارت اور امریکہ کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے؟
مٹو کہتے ہیں کہ بھارت چاہے مزید ممالک کے ساتھ اتحاد کر لے مگر ٹیکنالوجی، فوج اور دنیا میں اہمیت کی وجہ سے امریکہ پھر بھی بھارت کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ''ممالک کے تعلقات میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں، لیکن بھارت کے لیے امریکہ کے ساتھ کام کرنے کی وجہ ان سے الگ ہونے کی وجہ سے زیادہ مضبوط ہے۔‘‘بھارت اپنی 'اسٹریٹجک فریڈم‘ کے لیے پرعزم
بھارت اور امریکہ کے تعلقات دنیا کی سیاست میں بہت اہم ہیں اور دونوں ممالک اس بات کو سمجھتے ہیں کہ شراکت داری اور اتحاد کے بغیر دنیا میں مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال کو سمجھنا اور اس سے اکیلے نمٹنا مشکل ہے۔
سابق بھارتی خارجہ سیکریٹری ہارش وردھن شرنگلا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بھارت ہمیشہ اپنی آزادی اور خود مختاری پر قائم رہتے ہوئے دنیا کے اہم ممالک سے تعلقات رکھے اور کسی مخصوص ملک کا ساتھ دینے یا کسی سخت اتحاد میں شامل ہونے کی بجائے تمام ممالک کے ساتھ سفارت کاری کو فروغ دے گا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مختلف شعبوں پر مشتمل ہیں اور یہ تعلقات وقتی مشکلات یا جھگڑوں سے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ وقت کے ساتھ اور مضبوط ہوں گے۔
شرنگلا نے کہا، ''بھارت اپنی آزادی پر قائم ہے۔ ہم بڑے ملکوں سے بات چیت کرتے ہیں، کسی کا ساتھ لینے کے لیے نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات سب سے مضبوط اور اہم ہیں، اور یہ مشکل وقت بھی برداشت کر سکتے ہیں۔