اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 14 ستمبر 2025ء) ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک سمیت یورو وژن نیوز سپاٹ لائٹ کے ارکان کی طرف سے یورپی ممالک کی قومی سرحدوں کے پار تک کی گئی چھان بین سے پتا چلا کہ اسرائیلی ریاست نے حکومتی سطح پر کام کرنے والی اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی کو استعمال کرتے ہوئے اور مالی ادائیگیوں کے ساتھ ایسی بین الاقوامی مہمیں چلائی ہیں، جن کا مقصد یورپ کے کئی حصوں اور شمالی امریکہ میں رائے عامہ پر اثر انداز ہوتے ہوئے اسے اپنے حق میں موڑنا ہے۔
گزشتہ کم از کم ایک سال سے ایک اسرائیلی یوٹیوب چینل ایسی تشہیری مہمیں چلا رہا ہے، جو اقوام متحدہ کے اداروں کو ساکھ خراب کرتی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ نگران اداروں اور تنظیموں کی طرف سے اخذ کردہ نتائج کو چیلنج کرتی ہیں۔
(جاری ہے)
’ہسبارا‘ کیا ہے؟
ایک حکومتی دستاویز سے انکشاف ہوا ہے کہ رواں برس جون کے وسط سے یوٹیوب اور ایکس جیسے پلیٹ فارمز پر ایسی پروپیگنڈا مہموں کے لیے کم از کم بھی 42 ملین یورو (تقریباﹰ 49 ملین ڈالر) خرچ کیے جا چکے ہیں۔
یہ اقدامات اسرائیل کی اس وسیع تر عوامی سفارت کاری کی اسٹریٹیجی کا حصہ ہیں، جسے ''ہسبارا‘‘ کہا جاتا ہے۔ عبرانی زبان میں اس اصطلاح کا مطلب ''وضاحت کرنا‘‘ ہے اور اسے اسرائیل کی ان پروموشنل کوششوں کو بیان کرنے کے استعمال کیا جاتا ہے، جن کا مقصد بیرونی دنیا میں اسرائیل کی ساکھ بہتر بنانا ہے۔اس سال 22 اگست کو، اسی دن جب انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (آئی پی سی) نے اپنے اس جائزے کی تفصیلات شائع کیں کہ غزہ پٹی کے زیادہ تر حصوں میں قحط پایا جاتا ہے، اسرائیلی حکومت کے تشہیری ادارے نے ایک نئی مہم شروع کر دی، جس میں قحط کی تردید کی گئی۔
غزہ میں 'خوراک سے بھری مارکیٹوں‘ کی ویڈیوز
اس کے لیے اسرائیلی وزارت خارجہ کے سرکاری یوٹیوب چینل پر مالی ادائیگی کے ساتھ اشتہارات کے ذریعے دو ویڈیوز کو خصوصاﹰ پروموٹ کیا گیا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کا یہ یوٹیوب چینل ایک سیاہ چیک مارک کے ساتھ باقاعدہ طور پر تصدیق شدہ ہے۔ ان ویڈیوز میں اشیائے خوراک سے بھری ہوئی مارکیٹیں دکھائی گئی تھیں اور یہ بھی کہ ریستوراں تو اپنے گاہکوں کو کھانے پیش کر رہے تھے۔
ظاہر یہ کیا گیا تھا کہ یہ ویڈیوز مبینہ طور پر غزہ میں رواں برس جولائی اور اگست کے مہینوں میں شوٹ کی گئی تھیں۔ ان ویڈیوز میں بیان کی گئی تفصیلات کا متن اسکرین پر سب ٹائٹلز میں پڑھا بھی جا سکتا تھا اور ان میں اسپیکر کے طور پر مصنوعی ذہانت یا اے آئی کی مدد سے تیار کردہ وائس اوور استعمال کیا گیا تھا۔ ان دونوں ویڈیوز کے آخر میں بیان یہ دیا گیا تھا: ''غزہ میں خوراک دستیاب ہے اور اس کے برعکس دعویٰ جھوٹ ہے۔
‘‘اہم بات یہ ہے کہ ان دونوں ویڈیوز کو مجموعی طور پر 18 ملین سے زائد مرتبہ دیکھا گیا اور انہیں انگلش، اطالوی، جرمن اور پولستانی زبانوں میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے سرکاری یوٹیوب چینل پر شائع کیا گیا تھا۔
ٹارگٹڈ میسیجنگ اور گمراہ کرنے والے بیانیہ
انٹرنیٹ سرچ انجن گوگل کے اشتہارات میں شفافیت سے متعلقہ مرکز کے مطابق یوٹیوب پر اشتہارات کو باقاعدہ ٹارگٹ کر کے مخصوص صنف، عمر یا مذہب کے افراد تک بھی پھیلایا جا سکتا ہے۔
گوگل ایڈ ٹرانسپیرنسی سینٹر کے مطابق اس حوالے سے اسرائیل نے خاص طور پر جرمنی، آسٹریا، اٹلی، پولینڈ، برطانیہ اور امریکہ میں یوٹیوب صارفین کو اپنا ہدف بنا کر یہ مہمیں چلائیں۔کھلے ریستورانوں سے ثابت نہیں ہوتا کہ غزہ میں قحط نہیں
ڈی ڈبلیو فیکٹ چیک ٹیم نے اپنے طور پر ان دونوں ویڈیوز میں سے ایک کا تفصیلی تجزیہ کیا، تو پتا چلا کہ یہ کلپ متعلقہ ریستورانوں کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر موجود تھے اور ان میں سے زیادہ تر اس سال جون اور جولائی میں پوسٹ کیے گئے تھے۔
لیکن کسی ریستوراں کے کھلے ہونے سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ غزہ پٹی میں قحط نہیں ہے۔ان ریستورانوں میں سے تو کئی نے سپلائی کی کمی اور بہت زیادہ افراط زر کی شکایت کرتے ہوئے اپنی عارضی بندش کی اطلاعات بھی دی تھیں۔
ڈی ڈبلیو نے اس ویڈیو میں دکھائے گئے تمام کیفے اور ریستورانوں سے بھی رابطہ کیا۔ مثلاﹰ غزہ سٹی کے علاقے رمال میں استکانہ کیفے سے، جس کے مالکان نے تصدیق کی کہ وہ کئی مرتبہ اشیائے خوردنی کی کمی کے باعث اپنا کیفے بند کر چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کمرشل سائز کی آٹے کی بوریاں سینکڑوں یورو کے برابر تک کی فی کس قیمت پر فروخت کی جا رہی تھیں اور قیمتوں کا انحصار عام طور پر اس بات پر ہوتا تھا کہ اس روز غزہ پٹی میں سامان کی ترسیل کی صورت حال کیا تھی۔
اس کیفے کے مینیو میں اگست کے اواخر میں نیوٹیلا (چاکلیٹ) والا ویفل بھی شامل تھا، جو فی کس تقریباﹰ 25 یورو یا 29 امریکی ڈالر کے برابر قیمت پر بیچا جا رہا تھا۔
اسی طرح بادام اور چاکلیٹ والی ایک چھوٹی پڈنگ کی قیمت بھی تقریباﹰ 25 یورو ہی کے برابر تھی۔اسی طرح غزہ سٹی میں او ٹو (O2) نامی ایک ریستوراں نے بھی تین ستمبر کو انسٹاگرام پر اپنا مینیو شائع کیا تھا، جس میں اس کی مصنوعات کی قیمتیں شامل تھیں: مثلاﹰ، ایک نیوٹیلا کریپ کی قیمت 12 یورو کے برابر۔
ہوش ربا مہنگائی کی ذاتی تصدیق
فلسطینی فیکٹ چیکنگ پلیٹ فارم اور میڈیا لٹریسی گروپ ''کاشف‘‘ کی شریک بانی ریحام ابو ایتا اس سال اپریل سے لے کر جولائی تک ایک تربیتی پروگرام کے سلسلے میں غزہ میں تھیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے ایک کلوگرام چینی 250 شیکل (تقریباﹰ 65 یورو) میں خریدی۔ تب وہاں ایک فلافل کے ساتھ روٹی کے ایک ٹکڑے کی قیمت 30 شیکل یا تقریباﹰ 8 یورو تھی۔‘‘یروشلم پوسٹ سمیت کئی میڈیا آؤٹ لیٹس میں اس سال جولائی کے آخر میں شائع ہونے والی ایک ویڈیو میں غزہ پٹی میں سبزیوں کا ایک سٹال دکھایا گیا تھا، جس کے ذریعے وہاں قحط کے دعوؤں سے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
ڈی ڈبلیو نے اس ویڈیو کو شوٹ کرنے والے فلسطینی صحافی ماجدی فاتحی سے گفتگو کی، جنہوں نے تصدیق کی کہ فوٹیج تو انہوں نے ہی تیار کی تھی، لیکن مقصد یہ دکھانا تھا کہ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی تھیں اور غزہ کے عوام کی بہت بڑی اکثریت انہیں خریدنے کی متحمل ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ریحام ابو ایتا نے بتایا، ''پوری غزہ پٹی میں عوامی مصائب کی شدت ہر جگہ یکساں نہیں۔
اگر کسی شہر کا محاصرہ جاری ہے، تو وہاں مہنگائی شدید ہو گی۔ کسی دوسرے غیر محاصرہ شدہ شہر میں ہو سکتا ہے کہ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتیں مقابلتاﹰ کچھ کم ہوں۔ لیکن یہ قیمتیں ہوش ربا حد تک زیادہ ہوتی ہیں۔‘‘فیکٹ چیکنگ کے نتائج
ڈی ڈبلیو کی طرف سے ان ویڈیوز کی فیکٹ چیکنگ کے نتائج یہ نکلے کہ اسرائیلی وزارت خارجہ جن ویڈیوز کو پروموٹ کر رہی ہے، وہ گمراہ کرنے والی ہیں۔
غزہ پٹی کے کچھ حصوں میں اگر کچھ خوراک دستیاب ہے بھی، تو دیگر حصوں میں اس کی یا تو شدید قلت ہے یا وہ اتنی مہنگی ہے کہ عام فلسطینی شہری اسے خرید ہی نہیں سکتے۔اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ غزہ گورنریٹ کے علاقے کو اس وقت قحط کا سامنا ہے، جو کہ آئی پی سی نامی ادارے کے طے کردہ 'فیز فائیو‘ کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ یہی قحط ستمبر کے مہینے کے آخر تک دیر البلح اور خان یونس تک میں بھی پھیل جائے گا۔
یہ بات بھی اب طے شدہ ہے کہ قحط کی غلط نفی کرنے والی اسرائیلی پروپیگنڈا ویڈیوز نہ صرف یوٹیوب اور کئی دیگر اسرائیلی چینلز کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں بلکہ کئی یورپی زبانوں میں انہیں متعدد دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی اشتہارات کے طور پر پروموٹ کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزارت خارجہ کا ردعمل
ڈی ڈبلیو نے اس فیکٹ چیکنگ کے دوران اسرائیلی وزارت خارجہ اور اسرائیلی حکومت کے مرکزی پریس آفس سے بھی رابطہ کیا تاکہ یہ دریافت کیا جا سکے کہ ایسی تشہیری ویڈیوز صرف چھ ممالک کے صارفین ہی کو کیوں ٹارگٹ کر رہی ہیں اور خود اسرائیلی حکومت غزہ پٹی میں خواک کے بحران کی موجودہ صورت حال کے بارے میں کیا کہتی ہے؟
اس کے جواب میں اسرائیلی وزارت خارجہ اور مرکزی پریس آفس نے ڈی ڈبلیو کو برلن میں اسرائیلی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔
اس پر برلن میں اسرائیلی سفارت خانے کے عملے نے اپنے رد عمل میں اسرائیلی وزارت خارجہ کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر شائع کردہ اس بیان کا حوالہ دیا: ''غزہ میں کوئی قحط نہیں ہے۔‘‘اس کے علاوہ جرمنی میں اسرائیلی سفارت خانے نے ڈی ڈبلیو کو ایک ایسی دستاویز بھی بھیجی، جو مبینہ طور پر آئی پی سی نامی ادارے کو بھجوائی گئی تھی اور جس میں اس تنظیم کے موقف کی تردید کی گئی تھی۔
تاہم اس پورے ردعمل میں پروپیگنڈا ویڈیوز کی تشہیری مہموں سے متعلق ڈی ڈبلیو کے سوالات کے نہ تو کوئی جواب دیے گئے اور نہ ہی ان سوالات کا کوئی ذکر کیا گیا۔دونوں طرف سے ہی ڈس انفارمیشن
ڈی ڈبلیو کی طرف سے اس فیکٹ چیک کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ غزہ کی جنگ کے دونوں فریقوں پر ہی غلط معلومات اور ڈس انفارمیشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں۔
تاہم ڈی ڈبلیو کے اپنے ذرائع کے مطابق اس ڈس انفارمیشن کے حجم اور اس کے گمراہ کر دینے والے مندرجات اسرائیل مخالف دھڑے کی ڈس انفارمیشن کے مقابلے میں اسرائیل کے حامی دھڑے کی مہم میں بہت زیادہ ہیں۔اس بارے میں یورپی ڈیجیٹل میڈیا آبزرویٹری کے فیکٹ چیکنگ کے کوآرڈینیٹر ٹوماسو کانیٹا نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میری رائے میں اسرائیل کو اس وقت بین الاقوامی برادری میں اس حد تک الگ تھلگ ہو جانے اور کٹ کر رہ جانے کے خطرے کا سامنا ہے، جس کی آج سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
‘‘
نوٹ: اس آرٹیکل کے لیے رپورٹنگ اور اس کی تیاری میں جرمنی، آسٹریا، بیلجیم اور سوئٹزرلینڈ کے متعدد پبلک سروس میڈیا اداروں کے صحافیوں نے حصہ لیا۔
ادارت: شکور رحیم، رابعہ بگٹی