9 مئی کیس: پی ٹی آئی سابق چیئرمین کی ذاتی پیشی کی درخواست خارج، صرف ویڈیو لنک پر حاضری کا حکم

جمعہ 19 ستمبر 2025 22:32

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 ستمبر2025ء) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس میں تحریک انصاف کے سابق چیئرمین اور مقدمے کے مرکزی ملزم کی ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیشی کی درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ پنجاب حکومت کے نوٹیفکیشن کے مطابق وہ صرف ویڈیو لنک کے ذریعے ہی عدالت میں پیش ہو سکیں گے۔

عدالت نے جیل ٹرائل کو عدالت منتقل کرنے کی درخواست بھی مسترد کر دی اور کیس کی سماعت 23 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے ایف آئی اے، پیمرا، پی آئی ڈی، وزارت داخلہ اور انٹرنل سیکیورٹی کے 10 گواہان کو طلب کر لیا۔گزشتہ روز سماعت کے دوران استغاثہ کے دو گواہان سب انسپکٹر سلیم قریشی اور سب انسپکٹر منظور شہزاد نے اپنے بیانات قلمبند کرائے اور عدالت میں 5 یو ایس بیز پیش کیں جن میں 9 مئی کے واقعات سے متعلق 40 ویڈیوز، مختلف اخبارات کے تراشے، اور سی سی ٹی وی فوٹیج شامل تھیں۔

(جاری ہے)

ان ویڈیوز میں عمر تنویر، صداقت عباسی اور سکندر مرزا کے کلپس بھی موجود ہیں۔پراسیکیوشن نے عدالت کو بتایا کہ جیل ٹرائل پنجاب حکومت کا ایگزیکٹو آرڈر ہے جس پر نظرثانی صرف آئینی عدالت کر سکتی ہے۔ 2016 میں سی آر پی سی قانون میں ترمیم کے بعد ملزمان کو ویڈیو لنک کے ذریعے پیش کرنے کا اختیار موجود ہے، جبکہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعات 15 اور 21 کے تحت عدالت کو ٹرائل کے طریقہ کار کا مکمل اختیار حاصل ہے۔

پراسیکیوشن کے مطابق ملزم کی ذاتی حیثیت میں پیشی پر اصرار کرنا ٹرائل میں تاخیر اور رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔سابق چیئرمین کے وکلا نے مؤقف اختیار کیا کہ فیئر ٹرائل کے لیے ذاتی حیثیت میں پیشی ناگزیر ہے اور انہیں اپنے مؤکل سے ملاقات کر کے ہدایات لینا ضروری ہے۔ وکلا نے اعتراض کیا کہ ملزم کو واٹس ایپ کال پر پیش کرنا غیر قانونی ہے کیونکہ قانون میں صرف ویڈیو لنک کا طریقہ کار تسلیم شدہ ہے۔

پراسیکیوشن نے جواب دیا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی سابق وزیراعظم کے لیے الگ ضابطہ نہیں بنایا جا سکتا۔ پراسیکیوٹر نے کہا کہ "فیئر ٹرائل کا ماڈل قانون کے اندر موجود ہے، اگر ملزم مطمئن نہیں تو اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرے، لیکن ٹرائل وکلائے صفائی کی مرضی پر نہیں چل سکتا۔" عدالت نے قرار دیا کہ ملزم کی ویڈیو لنک حاضری کا مقصد یہ ہے کہ وہ نظر آئیں اور ان کے خلاف کارروائی قانون کے مطابق جاری رہے۔