- خیبر: دھماکا خیز مواد کے ذخیرے میں دھماکا، 24 افراد ہلاک
- دو ریاستی حل کا آغاز اب ہو جانا چاہیے، جرمن وزیرخارجہ
- اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق پر غور
- اسرائیل نے اردن سے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے سفر کے لیے واحد بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی
- پیرو میں حکومت مخالف مظاہرے، جھڑپوں میں 18 افراد زخمی
- روسی طیاروں کی جانب سے ایسٹونیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ طلب
- پاکستان کا ایٹمی دفاعی حصار سعودی عرب تک وسیع
خیبر: دھماکا خیز مواد کے ذخیرے میں دھماکا، 24 افراد ہلاک
پاکستان کے قبائلی ضلع خیبر میں پولیس کے مطابق وادی تیراہ میں ایک کمپاؤنڈ میں رکھا گیا دھماکا خیز مواد پھٹنے کے نتیجے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے۔
(جاری ہے)
مقامی پولیس افسر ظفر خان کے مطابق کمپاؤنڈ کو طالبان کمانڈر امان گل اور مسعود خان بطور بم فیکٹری استعمال کر رہے تھے اور حالیہ دنوں میں اس میں اسلحہ ذخیرہ کیا گیا تھا۔ دھماکے سے قریب کی کئی رہائش گاہیں بھی تباہ ہو گئیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اس شورش زدہ علاقے میں شدت پسند عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور مختلف اضلاع کی مساجد میں بھی ہتھیار چھپائے گئے ہیں۔
پاکستانی سکیورٹی فورسز ان دنوں خیبر، باجوڑ اور دیگر شمالی اضلاع میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جبکہ پاکستان کا الزام ہے کہ ٹی ٹی پی کے متعدد اہم کمانڈر افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
پاکستان کا ایٹمی دفاعی حصار سعودی عرب تک وسیع
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان حالیہ دفاعی اشتراک کے معاہدے کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب کو بھی پاکستان کے جوہری ہتھیاروں سے تحفظ دستیاب ہوگا۔ سعودی حکومت کے قریبی ذرائع کے مطابق یہ معاہدہ برسوں سے تیار ہو رہا تھا اور اس میں ’’ایٹمی پہلو‘‘ بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
تجزیہ کار علی شہابی نے کہا کہ پاکستان کو یاد ہے کہ سعودی عرب نے ان کے ایٹمی پروگرام کی مالی معاونت کی تھی اور پابندیوں کے دوران ان کا ساتھ دیا تھا۔ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی ایک مقامی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں کہا کہ ضرورت پڑنے پر سعودی عرب کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک رسائی دی جائے گی۔
یہ معاہدہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب قطر میں اسرائیلی حملے نے خطے میں سکیورٹی سے متعلق تشویش پیدا کر دی ہے اور دوسری جانب صرف چند ماہ قبل بھارت اور پاکستان کے درمیان چار روزہ شدید جھڑپوں ہوئی ہیں۔
سعودی عرب نہ صرف بھارت کا تیسرا بڑا تیل کا سپلائر ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں شہری وہاں مقیم اور برسرِ روزگار ہیں۔ ماضی میں بھی ریاض پاکستان کی کمزور معیشت کے لیے اہم سہارا رہا ہے۔
روسی طیاروں کی جانب سے ایسٹونیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ کی ہنگامی میٹنگ طلب
ایسٹونیا نے روسی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے۔
روس نے ایسٹونیا کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
دوسری جانب ایسٹونیا کی وزارتِ دفاع نے طیاروں کی پرواز کا نقشہ جاری کیا ہے۔ اجلاس پیر کو نیویارک میں ہوگا تاہم روس کے پاس قرارداد کو ویٹو کرنے کا اختیار موجود ہے۔
جرمن وزیرِ خارجہ یوہان واڈے فیہول نے کہا کہ روس کا ’’جارحانہ رویہ‘‘ اب بھی برقرار ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ روس کو مزید ایسی خلاف ورزیوں پر نتائج بھگتنا ہوں گے۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو بھی اس معاملے پر آرٹیکل 4 کے تحت مشاورت کرے گا، جو ایک ہفتہ قبل پولینڈ کے فضا میں داخل ہونے والے روسی ڈرونز گرائے جانے کے بعد مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
پیرو میں حکومت مخالف مظاہرے، جھڑپوں میں 18 افراد زخمی
پیرو کے دارالحکومت لیما میں سینکڑوں حکومت مخالف مظاہرین دوبارہ سڑکوں پر ہیں، جہاں پولیس اور نوجوانوں کے ’’جنریشن زی‘‘ گروپس کے درمیان شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ ہفتہ اور اتوار کے مظاہروں میں کم از کم 18 افراد زخمی ہوئے، جن میں پولیس اہلکار اور صحافی بھی شامل ہیں۔
مظاہروں کی وجہ حکومت اور پارلیمان پر بدعنوانی کے الزامات اور نوجوانوں کو نجی پنشن فنڈ میں شامل کیے جانے کا نیا قانون بنا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پتھراؤ، پیٹرول بم اور آنسو گیس کا تبادلہ ہوا۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بعض مقامات پر صحافیوں پر براہِ راست ربر کی گولیاں چلانے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے پولیس تشدد کی مذمت کی ہے جبکہ کہا جا رہا ہے کہ صدر دینا بولوارٹے اور پارلیمان کی مقبولیت تیزی سے گر رہی ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 80 فیصد عوام حکومت اور 85 فیصد افراد پارلیمان سے نالاں ہیں۔
اسرائیل نے اردن سے مغربی کنارے کے فلسطینیوں کے سفر کے لیے واحد بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی
اسرائیل نے پیر کو چار روز بعد وہ واحد سرحدی راستہ دوبارہ کھول دیا جس کے ذریعے مغربی کنارے کے فلسطینی اردن جا سکتے ہیں۔
یہ کراسنگ جمعرات کو اس وقت بند کی گئی تھی جب ایک حملے میں دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ اسرائیلی فوج نے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ ایک اردنی ڈرائیور نے کیا جو غزہ کے لیے امداد لے جا رہا تھا۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق اردن نے اتوار کو عارضی طور پر پل کھولا تھا لیکن اسرائیل نے اسے دوبارہ بند کر دیا۔ اسرائیلی اخبار ynet کے مطابق انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے لیے راستہ اس وقت تک بحال نہیں ہوگا جب تک اردن اپنی تحقیقات مکمل کر کے اسرائیل سے نتائج شیئر نہیں کرتا۔
اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے الحاق پر غور
اسرائیلی حکام نے اشارہ دیا ہے کہ فرانس سمیت بعض مغربی ممالک کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے جواب میں اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے بعض حصوں کو اسرائیل میں ضم کرنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق یہ اقدام متحدہ عرب امارات جیسے اہم اتحادیوں کو ناراض کر سکتا ہے، جس نے واضح کیا ہے کہ الحاق ’’ابراہیم معاہدے‘‘ کی روح کے منافی تصور کیا جائے گا۔
فرانسیسی وزیرِ خارجہ ژاں نوئل بارو نے کہا کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا دو ریاستی حل کے لیے فرانس کے عزم اور حماس کے خلاف ایک علامتی اعلان ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس ماہ ایک سات نکاتی اعلامیہ منظور کیا ہے جس میں دو ریاستی حل کے لیے وقت مقرر کرنے سمیت متعدد اقدامات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
دوسری جانب غزہ پٹی کے سب سے بڑے شہر غزہ سٹی کے ہزاروں بے گھر فلسطینی اسرائیلی حملوں سے بچنے کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہیں، جبکہ مقامی حکام کے مطابق اکتوبر دو ہزار تئیس سے جاری اس مسلح تنازعے میں اب تک 65 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سمیت دیگر عہدیدار شریک نہیں ہو رہے کیوں کہ امریکہ نے فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کے وفد کو ویزے جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے محمود عباس ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کریں گے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی ذاتی طور پر شریک نہیں ہو رہے اور ویڈیو خطاب کریں گے۔دوسری جانب اسرائیلی عوام کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں نے بارہا ریاست قائم کرنے کے مواقع ضائع کیے اور اب ان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
دو ریاستی حل کا آغاز اب ہو جانا چاہیے، جرمن وزیرخارجہ
جرمن وزیرِ خارجہ یوہان واڈےفیہول نے کہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں دو ریاستی حل کی کوششوں کا آغاز فوراً ہونا چاہیے۔
تاہم انہوں نے کہا کہ جرمنی کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا جانا اس عمل کے اختتام پر ممکن ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے قبل نیویارک میں فرانس اور سعودی عرب کی جانب سے منعقدہ کانفرنس میں واڈےفیہول شرکت کر رہے ہیں، جس کا مقصد اسرائیل اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے درمیان امن کے موضوع پر گفتگو ہے۔
جرمن وزیرخارجہ نے زور دیا کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، غزہ کے عوام کے لیے زیادہ ہیومینیٹیرین امداد اور یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی ناگزیر شرائط ہیں۔انہوں نے غزہ پر اسرائیلی فوجی کارروائی کو ’’مکمل طور پر غلط‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ علاقوں کا الحاق بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے اور تنازعے کے پائیدار حل کے امکانات کو نقصان پہنچاتا ہے۔
فرانس، بیلجیم اور نیوزی لینڈ سمیت کئی ممالک پیر کو فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے جا رہے ہیں، جبکہ برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا اتوار کو ایسا کرنے والی پہلی بڑی مغربی طاقتیں بن گئے ہیں۔