- پہلی بار، ایک خاص چیز کے لیے سب تیار ہیں۔ ہم اسے مکمل کر کے دکھائیں گے، ٹرمپ
ادارت: عاطف توقیر، کشور مصطفیٰ
ٹرمپ نیتن یاہو ملاقات: غزہ کے بارے میں فیصلہ ہو سکے گا؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپآج پیر 29 ستمبر کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج پیر 29 ستمبر کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کر رہے ہیں، جس میں غزہ امن منصوبے کے بارے میں پیش رفت متوقع ہے۔
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ میں تقریباً دو سال سے جاری جنگ کے خاتمے، حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ کو غیر مسلح کرنے کا معاہدہ گزشتہ ہفتے عرب رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کے بعد عملی طور پر تیار ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
انہوں نے اتوار کو ایک ممکنہ پیش رفت کا اشارہ دیتے ہوئے اپنے ٹروتھ سوشل نیٹ ورک پر لکھا: ’’پہلی بار، ایک خاص چیز کے لیے سب تیار ہیں۔
تاہم، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حالیہ دنوں میں کچھ زیادہ امید افزا پیغام نہیں دیا۔
انہوں نے جمعہ 27 ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک جارحانہ خطاب کے دوران حماس کے خلاف ’’کام ختم کرنے‘‘ کا عہد کیا اور ایک فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کا وعدہ کیا جسے حالیہ دنوں میں اہم مغربی ممالک نے تسلیم کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم غزہ شہر میں جاری فوجی کارروائی کو روکنے سے بھی گریزاں دکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ سے لاکھوں افراد کو حالیہ ہفتوں میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔
جب سے ٹرمپ جنوری میں اقتدار میں واپس آئے ہیں، یہ نیتن یاہو کا امریکہ کا چوتھا دورہ ہے۔ امریکی صدر ایک ایسے تنازعے کو ختم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں جسے انہوں نے کہا تھا کہ وہ دنوں میں حل کر سکتے ہیں۔
عام طور پر نیتن یاہو کے مضبوط اتحادی رہنے والے ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں مایوسی کے آثار دکھائے ہیں۔
انہوں نے گزشتہ ہفتے نیتن یاہو کو مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کے خلاف خبردار کیا تھا اور ایک اہم امریکی اتحادی ملک ’’قطر ‘‘میں حماس کے ارکان پر اسرائیل کے حالیہ حملے کی بھی مخالفت کی تھی۔
مشرق وسطیٰ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ناتن ساکس نے کہا ہے کہ آج ہونے والی ملاقات کا نتیجہ اس بات پر منحصر ہو گا کہ ٹرمپ نیتن یاہو پر کس قدر دباؤ ڈالنے کے لیے تیار ہیں تاکہ وہ ایک ایسا معاہدہ قبول کر لیں جس پر اسرائیل اور حماس دونوں ابھی تک رضامند نہیں ہیں۔
ساکس نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’’نیتن یاہو کی واضح ترجیح جنگ جاری رکھنا اور حماس کو شکست دینا ہے، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ٹرمپ کے لیے انہیں اس سے ہٹ کر قائل کرنا ناممکن ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس کے لیے ٹرمپ کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ اور ایک بہت ہی واضح اور مستقل حکمت عملی کی ضرورت ہوگی۔‘‘
دونوں رہنما آج پیر کو عالمی وقت کے مطابق شام 17:15 پر ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کریں گے۔