عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر آزاد کشمیر بھر میں شٹر ڈاﺅ ن اور پہیہ جام ہڑتال

انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس دوسرے روز بھی بند مظفرآباد،پونچھ،میرپور،کوٹلی ڈویژ نز میں تجارتی مراکز،بازار اور لاری اڈے بند رہے،ریلیاں اور جلسے جلوس نکالے گئے،آپ نے ہمیں ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے.ممبر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی شوکت میر

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 29 ستمبر 2025 14:21

عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر آزاد کشمیر بھر میں شٹر ڈاﺅ ن اور پہیہ جام ..
مظفر آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 ستمبر ۔2025 )جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر آزاد کشمیر بھر میں پیر کو شٹر ڈاﺅ ن اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی ، مظفرآباد،پونچھ،میرپور،کوٹلی ڈویژ ن میں تجارتی مراکز،بازار اور لاری اڈے بند رہے جبکہ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب رہی علی الصبح کھلنے والے ہوٹل اور دکانیں بھی بند رہیں سرکاری اورنجی سکولوں میں طلبا نہیں آئے.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق آزادکشمیر بھر میں تمام چھوٹے بڑے شہروں اوردیہات میں عوام کی بڑی تعداد گھروں سے باہر نکل آئی اور ریلیاں اور جلسے جلوس منعقد کئے گئے مظاہرین نے بینرز اورکتبے اٹھارکھے تھے او رمطالبات کے حق میں نعرے بازی کررہے تھے آزاد کشمیرمیں دوسرے روز بھی انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند ہے، پہلی مرتبہ لینڈ لائن ٹیلی فون سروس بھی مکمل بند ہے کشمیر کے شہریوں کے ریاست کے باہر رابطے منقطع ہو کر رہ گئے بیرون ملک کشمیریوں کے بھی اپنے پیاروں سے رابطے نہیں ہوسکے.

انٹرنیٹ کی بندش سے متعلق پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی ترجمان زیب النسا نے بتایا کہ انٹرنیٹ سروسز وفاقی وزارت داخلہ کی ہدایت پر بند کی گئی ہیں شٹرڈاﺅن اور پہیہ جام ہڑتال کی کال عوامی ایکشن کمیٹی نے دے رکھی ہے عوامی ایکشن کمیٹی نے 38نکاتی چارٹرآف ڈیمانڈ پر ہڑتال کی ہے مہاجرین کی 12 نشستیں اوراشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کا مطالبہ ہے.

دریں اثناءوزیراعظم شہباز شریف نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر بات چیت کی ہامی بھرتے ہوئے ان سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے مسلم لیگ نون کے کشمیر کے عہدے دار اور سابق وزیر اطلاعات مشتاق احمد منہاس نے گزشتہ شام لندن میں صحافیوں کو بتایا کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنی ہڑتال منسوخ کرنے کی اپیل کی ہے مشتاق منہاس نے کہا کہ ہماری وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ہڑتال کے معاملے پر بات ہوئی ہے.

انہوں نے بہت تحمل سے ہماری بات سنی اور کہا کہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے تقریبا 98 فیصد مطالبات پر ہم آہنگی ہو گئی تھی، صرف دو مطالبات پر ڈیڈ لاک تھا انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ میرا یہ پیغام عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داروں تک پہنچا دیں کہ میں دو دن میں پاکستان پہنچ جاﺅں گا اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ذمہ داروں کو میں خود بلاﺅں گا مشتاق منہاس نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بھی اپیل کی کشمیریوں کے جو بھی مسائل ہیں، ان سے متعلق وہ اپنا کردار ادا کریں گے.

انہوں نے یہ اپیل کی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی پاکستان اور کشمیر کے وسیع تر مفاد میں احتجاج منسوخ کر دیں کیونکہ انڈیا اس کو ہائی لائٹ کرے گا اور یوں یہ جگ ہنسائی کا باعث بنے گی جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رکن شوکت نواز میر نے مظفرآباد سے ایک مختصر ویڈیو بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا یہ سننے میں آیا ہے کہ وزیراعظم پاکستان نے یہ بیان دیا کہ میں خود آ کر یہ مسائل دیکھنا چاہتا ہوں اور اس احتجاج کو کال آف کریں، تو میں اپنے حکام بالا سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جنہوں نے انٹرنیٹ سروس بند کر کے ہمیں بہت پرانے دور میں لا چھوڑا ہے کہ ہم اپنی بات کسی تک پہنچا نہیں سکے اور نہ ہی کسی کی بات سن سکتے ہیں آپ اس سے کیا تاثر دینا چاہتے ہیں؟ آپ نے ہمیں ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے.

انہوں نے کہا کہ اگر وزیراعظم پاکستان نے واقعی یہ بیان دیا ہے تو آپ کو انٹرنیٹ سروس کو بحال کرنا پڑے گا تاکہ ہم ان کے بیان کو دیکھتے ہوئے اپنے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کر سکیں جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومت کے سامنے 38 مطالبات پر مبنی ایک چارٹر آف ڈیمانڈز رکھا تھا جس میں اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ اور پاکستان میں مقیم مہاجرین جموں کشمیر کی کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں مختص 12 نشستوں کے خاتمے جیسے مطالبات شامل تھے.

ان مطالبات پر مذاکرا ت کےلئے 25ستمبر کو اسلام آباد کی جانب سے وزیر امور کشمیر امیر مقام اور وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری مظفرآباد پہنچے تھے مظفرآباد میں عوامی ایکشن کمیٹی، اسلام آباد کے نمائندوں اور مقامی حکومت کے ارکان کے درمیان طویل مذاکراتی نشست بے نتیجہ ختم ہو گئی تھی جس کے بعد طارق فضل چوہدری نے کہا تھا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے قابل عمل مطالبات کو فوری طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا، تاہم کچھ مطالبات ایسے ہیں جن پر عمل آئینی ترامیم کے بغیر ممکن نہیں ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دیگر سیاسی جماعتوں اور اراکین اسمبلی کو قائل کریں.