غزہ معاہدہ جنگ کی بجائے سفارت کاری کی طاقت کا مظہر، یو این چیف

یو این جمعرات 9 اکتوبر 2025 20:30

غزہ معاہدہ جنگ کی بجائے سفارت کاری کی طاقت کا مظہر، یو این چیف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اکتوبر 2025ء) اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کے اعلان کا دوبارہ خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ وہ لمحہ ہے جس کا سب کو طویل عرصے سے انتظار تھا اور اب اس موقع سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔

سیکرٹری جنرل نے اس پیشرفت کے لیے امریکہ، قطر، مصر اور ترکیہ کی سفارتی کوششوں کو سراہتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ معاہدے کی شرائط پر مکمل عملدرآمد کریں اور اس موقع کو ضائع نہ ہونے دیں۔

تمام یرغمالیوں کو باعزت طریقے سے رہا کیا جانا چاہیے اور مستقل جنگ بندی عمل میں آنی چاہیے تاکہ خونریزی کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو سکے۔

Tweet URL

انہوں نے واضح کیا کہ اقوام متحدہ اس معاہدے کی مکمل حمایت کرے گا اور اس پر عملدرآمد میں مدد دینے کے لیے تیار ہے۔

(جاری ہے)

ادارے کے پاس مہارت، ترسیلی نظام اور مقامی سطح پر تعلقات موجود ہیں جبکہ امدادی سامان کی بھی کمی نہیں۔ جنگ بندی عمل میں آتے ہی غزہ کے لوگوں کو بلاتاخیر بڑے پیمانے پر خوراک، پانی، طبی سہولیات اور پناہ کا سامان فراہم کرنا ممکن ہو سکے گا۔

امدادی رسائی کی ضرورت

انتونیو گوتیرش نے زور دیا ہے کہ جنگ بندی کو حقیقی پیش رفت میں تبدیل کرنے کے لیے صرف ہتھیار خاموش ہونا کافی نہیں بلکہ امدادی کارکنوں کو علاقے میں مکمل، محفوظ اور مسلسل رسائی فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔

غزہ میں امداد کی ترسیل کی راہ میں تمام رکاوٹوں اور پابندیوں کو ہٹانا ہو گا اور جنگ سے تباہ ہونے والے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ رکن ممالک کو امدادی سرگرمیوں کے لیے حسب ضرورت مالی وسائل فراہم کرنے چاہییں تاکہ بڑے پیمانے پر انسانی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

سیکرٹری جنرل نے جنگ میں ہونے والے جانی نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا جن میں اقوام متحدہ کے اہلکاروں اور امدادی کارکنوں کی ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔

انہوں نے خطرناک حالات میں اپنے فرائض انجام دینے والے ان کارکنوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

امید کی کرن

ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ عالمی برادری اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک معتبر سیاسی راستہ اختیار کرے، فلسطینیوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا جائے اور مسئلے کے دو ریاستی حل کی طرف پیش رفت کی جائے۔

یہی وہ راستہ ہے جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک منصفانہ اور دیرپا امن کو ممکن بنا سکتا ہے

انتونیوگوتیرش نے اس پیش رفت کو سفارت کاری کی طاقت اور امکانات کا ثبوت قرار دیا اور کہا یہ یاد دہانی ہے کہ تنازعات کا حل میدان جنگ میں نہیں بلکہ مذاکرات کی میز پر تلاش کیا جانا چاہیے اور پھر اس پر دنیا کی نظروں کے سامنے مکمل طور پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔