Live Updates

بھارت: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی دارالعلوم دیوبند کیوں گئے؟

DW ڈی ڈبلیو پیر 13 اکتوبر 2025 16:40

بھارت: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی دارالعلوم دیوبند کیوں گئے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 13 اکتوبر 2025ء) امیر خان متقی کے بھارت کے پہلے دورے کے حالانکہ سفارتی اور اسٹریٹیجک مقاصد تھے لیکن اترپردیش کے سہارن پور ضلع کے دیوبند میں واقع معروف اسلامی درسگاہ ’دارالعلوم‘ کا دورہ توجہ کا اہم مرکز رہا۔ دارالعلوم دیوبند برصغیر کی سب سے قدیم اور نمایاں اسلامی درسگاہ ہے، جسے مشرق کا ’الازہر‘ بھی کہا جاتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند میں متقی کا شاندار خیرمقدم کیا گیا۔ اپنی میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیوبند کے علماء اور اس علاقے کے لوگوں کی جانب سے جو گرم جوشی اور محبت انہیں ملی ہے، وہ ناقابلِ فراموش ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ’’بھارت اور افغانستان کے تعلقات کا مستقبل نہایت روشن نظر آتا ہے۔

(جاری ہے)

‘‘

دارالعلوم کی انتظامیہ نے متقی کو ’قاسمی‘ کا اعزازی لقب اور حدیث کی تعلیم دینے کا اجازت نامہ بھی دیا۔

اس ادارہ کے فارغ التحصیل کو، اس کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی کے نام کی مناسبت سے ’قاسمی‘ کہا جاتا ہے۔

بھارت میں شدت پسند ہندو تنظیمیں دارالعلوم دیوبند پر دہشت گردی اور اسلامی جہاد کو فروغ دینے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ چار سال قبل اترپردیش کی یوگی ادیتیہ ناتھ حکومت نے طالبان کی حمایت کرنے پر متعدد افراد کو جیلوں میں ڈال دیا تھا۔

متقی کے دارالعلوم جانے پر کافی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔ بعض ناقدین نے سوال اٹھایا کہ متقی نے ایسے ادارے کا دورہ کیوں کیا۔ حالانکہ دیوبند جانے سے قبل انہوں نے دہلی میں وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے ایک پروگرام میں بھی شرکت کی، جسے آر ایس ایس سے وابستہ تھنک ٹینک سمجھا جاتا ہے۔

تجزیہ کار اسے غیر ضروری بحث قرار دے رہے ہیں۔

معروف تجزیہ کار اور صحافی اسد مرزا کا کہنا تھا کہ متقی کے دارالعلوم کے دورے کو سیاسی رنگ دینے کی ضرورت نہیں اور ’’ہمیں اس نظریے سے دیکھنا چاہیے کی بھارت اپنے ہمسایہ ملکوں پر کن کن طریقوں سے اثر ڈال سکتا ہے اور کیا کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘
جمعیت علماء ہند کے صدر اور متقی کے می‍زبانوں میں سے ایک مولانا ارشد مدنی بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ہماری ان سے کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی، ہمارے جو علمی ثقافتی تعلقات رہے ان پر ہی بات ہوئی۔

‘‘ مدنی نے کہا کہ متقی نے دارالعلوم سے اپنی علمی اور دینی نسبت کا ذکر کیا اور کہا کہ یہ ہماری مادر علمی ہے۔

بھارت، افغانستان کے تعلقات صدیوں پرانے

دارالعلوم دیوبند پر کتاب ’ڈیمیسٹیفائنگ مدرسہ اینڈ دیوبندی اسلام‘ کے مصنف اسد مرزا نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر متقی کو آر ایس ایس سے وابستہ ایک تنظیم کے پروگرام میں شرکت پر کوئی اعتراض نہیں تھا، تو دارالعلوم دیوبند کے دورے پر اتنا شور مچانے کی ضرورت کیوں؟

انہوں نے کہا کہ ناقدین کو پہلے دارالعلوم اور افغانستان کے بارے میں درست حقائق جان لینے چاہییں۔

خیال رہے کہ افغانستان وہ پہلا ملک تھا جس نے 1866 میں دارالعلوم دیوبند کے قیام کے فوراﹰ بعد اس ادارے کو تسلیم کیا اور اپنے طلبہ کو اسلامی علوم سیکھنے کے لیے بھیجا۔ 1957 میں شاہ افغانستان محمد ظاہر شاہ نے دارالعلوم کا دورہ کیا تھا۔

اسد مرزا نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ 1980 سے قبل، جب بھارت میں غیر ملکی طلبہ پر مدارس میں داخلے پر پابندی کا قانون نافذ نہیں ہوا تھا، تو افغانستان، بنگلہ دیش، میانمار اور وسطی ایشیائی ممالک کے بہت سے طلبہ دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پہلا عارضی حکومتِ ہند یکم دسمبر 1915 کو کابل میں قائم ہوا، جس کے صدر راجا مہندر پرتاپ اور وزیرِ اعظم مولانا برکت اللہ تھے۔

اسی طرح 1913 سے 1920 تک ’’تحریکِ ریشمی رومال‘‘ دیوبندی رہنماؤں کی قیادت میں برطانوی راج کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ تھی، جس میں ترکی، جرمنی، اور افغانستان کے ساتھ اتحاد کے ذریعے برطانوی حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔

اگرچہ یہ تحریک کامیاب نہ ہو سکی، لیکن اسے ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کا اہم باب مانا جاتا ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے دورے کا پاکستان پر اثر؟

نئی دہلی میں قیام کے دوران افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے پاکستان کے حوالے سے جو باتیں کہیں ان پر کچھ حلقے بغلیں بجا رہے ہیں۔ مثلاﹰ پاکستان اور افغانستان کے حالیہ سرحدی جھڑپوں کے سلسلے میں متقی کا کہنا تھا، ’’افغانوں کے حوصلے کو آزمایا نہ جائے۔

اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے، تو سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے پوچھ لے۔ وہ سمجھا دیں گے کہ افغانستان سے کھیلنا اچھا نہیں۔‘‘

متقی نے کہا، ’’ہم پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، لیکن اس ملک میں کچھ عناصر ایسے ہیں جو مسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

اسد مرزا کا کہنا تھا کہ دراصل طالبان حکومت یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ آ‍زاد ہے، اپنے بل بوتے پر خود کو کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ دونوں ملکوں کے تعلقات بہت حد تک خراب ہو چکے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق طالبان رہنما کا دیوبند دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ نظریاتی اور روحانی تعلقات کے حوالے سے بھی پاکستان پر مکمل انحصار نہیں کرنا چاہتے۔

متقی کا کہنا تھا کہ کابل اسلام آباد کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، لیکن یہ یکطرفہ نہیں ہو سکتے۔

کیا دیوبند دورے سے بھارتی مسلمانوں پر بھی اثر پڑے گا؟

مسلمانوں کا ایک حلقہ اس خدشے کا اظہار کر رہا ہے کہ اگر بھارت کے متعلق طالبان حکومت کے موقف میں تبدیلی آئی تو بھارتی میڈیا ملک کے مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کردے گی۔

لیکن اسد مرزا اس سے متفق نہیں ہیں۔

اسد مر‍زا کا کہنا ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو یہ ’’دوہری‘‘ پالیسی ہو گی اور اس کے لیے بے لگام میڈیا اور سوشل میڈیا ذمہ دار ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی حکومت پچھلے ایک دہائی سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعہ طالبان سے رابطے میں ہے اور افغانستان کے ساتھ تعلق رکھنا بھارت کے حق میں ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امیر خان متقی کا دارالعلوم دیوبند کا دورہ اس بات کا اشارہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت اور بھارت کے درمیان تعلقات محض سفارتی سطح تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ اس میں ثقافتی، تعلیمی، اور روحانی عنصر بھی شامل ہو جائے گا۔

ادارت: صلاح الدین زین

Live پاک افغان کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات