کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2025ء) کراچی
چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی)، ساتوں انڈسٹریل ٹاؤن ایسوسی ایشنز اور ٹیکسٹائل برآمدی تنظیموں نے صنعتوں کو بھاری لیویز پر مشتمل
گیس بلوں کے اجراء پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعظم
شہباز شریف، وزیر توانائی پیٹرولیم ڈویژن علی پرویز ملک،وزیر توانائی پاور ڈویژن اویس لغاری اور نیشنل کوآرڈینٹر ایس آئی
ایف سی سرفراز احمد سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام صنعت دشمن ہے جو صنعتوں کی بندش، برآمدات میں کمی اور
پاکستان کو درآمدات پر انحصار کرنے والی معیشت کی طرف دھکیلنے کا سبب بنے گا۔جمعرات کو کے سی سی آئی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاجر رہنماؤں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ 4 ماہ کے لیے عائد کیے گئے متنازع لیوی کو فوری طور پر منجمد کرے جس سے
گیس بل لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں روپے تک جا پہنچے ہیں۔
(جاری ہے)
یہ صنعتوں کے لیے ناقابل برداشت بوجھ ہے جو پہلے ہی
معاشی بحران کا شکار ہیں۔پریس کانفرنس میں چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) زبیر موتی والا نے بذریعہ زوم شرکت کی جبکہ نائب چیئرمین بی ایم جی جاوید بلوانی، صدر کے سی سی آئی ریحان حنیف، سینئر نائب صدر محمد رضا، نائب صدر محمد عارف لاکھانی، تمام صنعتی ٹاؤنز و ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کی تنظیموں کے نمائندے موجود تھے۔
زبیر موتی والا نے یاد دہانی کروائی کہ
جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں
بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے صنعتوں کو کیپٹیو پاور پلانٹس لگانے کی ترغیب دی گئی اور حکومت نے اُس وقت یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ ان پلانٹس کے لیے
گیس فراہم کی جائے گی تاہم انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ موجودہ
گیس ٹیرف میں اضافے، بھاری ٹیکسوں اور لیویز نے کیپٹیو پاور جنریشن کو مالی طور پر ناقابل عمل بنا دیا ہے جس سے ان پلانٹس میں لگائے گئے اربوں روپے ضائع ہو گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف
پاکستان کی صنعتوں کو اب تک قائم ودائم دیکھ کر اب ہمیں درآمدی معیشت میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ
پاکستان کی کاروباری لاگت کا موازنہ
بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، چین، کمبوڈیا اور ویتنام سے کرے۔انہوں نے واضح کیا کہ ٹیکسٹائل سیکٹر 7 مراحل پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر مرحلے میں توانائی پر انحصار کیا جاتاہے۔
جب توانائی کی قیمتیں
بنگلہ دیش سے بھی کہیں زیادہ ہوں گی تو ہم کیسے مقابلہ کریں ہمیں بھی برابری کی بنیاد پرکاروباری ماحول فراہم کیا جائے اگر ہم تب بھی ناکام ہوں تو ہمیں جوابدہ ٹھہرائیں۔زبیر موتی والا نے صنعتوں پر گردشی قرض کا الزام مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ صنعتیں 98 فیصد ادائیگی کی پابندی کرتی ہیں جبکہ گھریلو شعبے میں نقصانات 47 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔
انہوں نے تجویز دی کہ گھریلو صارفین کو عالمی طرز پر سلنڈر پر منتقل کیا جائے اور پائپ لائن
گیس صرف صنعتوں کے لیے مختص کی جائے تاکہ نقصانات کم ہوں اور ریکوری میں بہتر آسکے۔انہوں نے کیپٹیو پاور پلانٹس پر 791 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو لیوی عائد کرنے کی شدید مذمت کی جو گرڈ
بجلی سے قیمت کے فرق کے بہانے لگائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی فرق موجود نہیں اور یہ حساب کتاب غلط طریقے سے 4 گھنٹے کی پیک آورز کی قیمت کی بنیاد پر کیا گیا جبکہ 24 گھنٹے کے اوسط نرخ کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔
اگر اوسط نرخ لیا جاتا تو فرق 238 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو سے زیادہ نہ ہوتا۔ انہوں نے 791 روپے کی لیوی کو غیرمنصفانہ، بے بنیاد اور ناقابل برداشت قرار دیا۔انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ پچھلی تاریخوں کی لیوی نافذ کی گئی تو صنعتیں تباہ ہو جائیں گی۔ یہ اقدامات ان لوگوں کے مفاد میں ہیں جو
پاکستان میں صنعتوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے وزیرِ اعظم سے اپیل کی کہ لیوی کو منجمد کریں، اس کے حساب کتاب کا فارمولا واضح کریں اور صنعتی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں۔
ہم جائز چارجز ادا کرنے کو تیار ہیں لیکن بے بنیاد لیوی قبول نہیں جو
پاکستان کی صنعتی اور برآمدی بنیاد کو تباہ کر دے۔بی ایم جی کے وائس چیئرمین و سابق صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی نے حکومت اور اوگرا پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جان بوجھ کر صنعتوں کو بند کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ صنعتوں کو بغیر کسی واضح فارمولا یا وضاحت کے کروڑوں روپے کے مبالغہ آمیز
گیس بل دیے جا رہے ہیں۔
یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لیوی جو خود ایک ٹیکس ہے، اُس پر بھی جی ایس ٹی عائد کیا گیا ہے جو انتہائی غیر منصفانہ ہے کیونکہ اس سے نقدی کی صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔انہوں نے انکشاف کیا کہ کے سی سی آئی نے حکومت کو فوری
مذاکرات کے لیے خط لکھا تھا لیکن جواب میں آن لائن شکایات درج کرنے کو کہا گیا اور 24 گھنٹے میں جواب دینے کا وعدہ کیا گیا مگر کوئی جواب نہیں ملا۔
حکومت تاجر برادری کو گمراہ کر رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ خود ایس ایس جی سی حکام کو بھی نہیں معلوم یہ بل کیسے بنائے گئے۔
گیس کمپنیاں پائپ لائنز میں اضافی دباؤ اور ممکنہ دھماکوں کے خدشات ظاہر کر رہی ہیں کیونکہ طلب کم ہو گئی ہے لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں۔
دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جہاں ہر ماہ
گیس نرخ تبدیل کئے جارہے ہوں جس کی وجہ سے صنعتوں کے لئے غیر یقینی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ
گیس کے نرخ کو جنوری 2023 کے 852روپے سے بڑھا کر 4259روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کردیا گیا ہے جو 403فیصد کے بے پناہ اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ کوئی ایسی حکمت عملی وضع کی جائے جس کے ذریعے
گیس نرخ میں سال بھر تبدیل نہ ہوں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ غلط توانائی پالیسیوں سے
گیس کا استعمال کم ہو رہا ہے، برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
ان غیر منطقی لیویز کو فوری طور پر واپس لیا جائے تاکہ
پاکستان کی معیشت کو بچایا جا سکے۔اس موقع پر صدر کے سی سی آئی ریحان حنیف نے کہا کہ تاجر برادری
گیس ٹیرف میں غیرمعمولی اضافے اور صنعتی صارفین پر غیر منصفانہ لیویز سے شدید پریشان ہے۔ ایسے من مانے فیصلوں سے صنعتی شعبے میں خوف و بے یقینی پھیل گئی ہے جو پہلے ہی زائد لاگت اور تیزی سے کم ہوتی برآمدات سے نبرد آزما ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک بھر کے معروف برآمد کنندگان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اگر موجودہ
گیس قیمتیں برقرار رہیں تو وہ بیرونِ ملک منتقل ہو سکتے ہیں۔
پاکستان صنعتی بندش یا برآمدی رکاوٹ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے حکومت سے فوری طور پر صنعتی اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی اپیل کی تاکہ پائیدار حل تلاش کیا جا سکے۔انہوں نے صنعتی ٹاؤنز اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشنز کی ہنگامی پریس کانفرنس میں بھرپور شرکت کو سراہا اور اسے اتحاد و عزم کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکمرانوں کو سمجھنا چاہیے کہ
پاکستان کی
معاشی بقاء کا انحصار صنعتوں اور برآمد کنندگان پر ہے۔
وہ پالیسیاں جو پیداوار کا گلا گھونٹتی ہیں وہ بے روزگاری،
مہنگائی اور عدم استحکام کو مزید بڑھا دیں گی۔صدر کاٹی اکرام راجپوت نے وزیرِ اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کریں تاکہ اس غیر منصفانہ
گیس لیوی کا حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے اقدامات کاروباری لاگت کا باعث بنیں گے، صنعتوں کو مفلوج کریں گے اور برآمدی صلاحیت کو تباہ کر دیں گے بالخصوص ایسے وقت میں جب برآمدات ہی
پاکستان کی واحد
معاشی امید ہیں۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے سابق صدر سلیم پاریکھ نے کہا کہ چار ماہ قبل عائد کی گئی 791 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو لیوی کے باعث
گیس ٹیرف 3500 روپے سے بڑھ کر 4991 روپے ہو گیا ہے جس میں متنازعہ لیوی اور ٹیکسز شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی نے اس اقدام کی سخت مخالفت کی اور
وزیراعلیٰ ہاؤس میں ایک اجلاس کے دوران وفاقی کابینہ کو تفصیلی حسابات پیش کیے جن سے یہ ثابت ہوا کہ یہ لیوی بلاجواز ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اجلاس میں یہ اشارہ بھی دیا گیا تھا کہ حکومت کا اصل مقصد صنعتوں کو
گیس پر مبنی
بجلی پیداوار سے قومی گرڈ پر منتقل کرنا ہے۔صدر نکاٹی فیصل معیز نے خبردار کیا کہ
گیس بلوں پر لیوی کا معیشت پر تباہ کن اثر پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ناانصافی ہے کہ جب بھی صنعتیں ریلیف مانگتی ہیں تو آئی ایم ایف کو بہانہ بنا کر بوجھ اسی شعبے پر ڈال دیا جاتا ہے جو ملک کے لیے
زرمبادلہ کماتا ہے۔
انہوں نے اس لیوی کی سخت مذمت کی اور فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر برآمدات میں کمی آئی اور صنعتیں بند ہوئیں تو معیشت زمین بوس ہو جائے گی۔سائٹ سپر ہائی وے کے نمائندے عامر سرفراز نے کے سی سی آئی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اگر
پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھانا ہے اور کاروباری حالات کو بہتر بنانا ہے تو ایسے صنعت دشمن اقدامات کو فوری طور پر واپس لینا ہو گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے ہی
پاکستان سے نکل رہی ہیں اور اگر یہی حالات برقرار رہے تو مقامی صنعتیں بھی جلد ہی اس راہ پر چل پڑیں گی۔لانڈھی ایسوسی ایشن کے ترجمان سراج منو نے کہا کہ بھاری لیوی عائد کرنے اور
گیس ٹیرف بڑھانے کا مقصد بظاہر یہ ہے کہ صنعتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ اپنے کیپٹیو پاور پلانٹس بند کر کے غیر مستحکم قومی گرڈ پر منتقل ہو جائیں۔انہوں نے خبردار کیا کہ یہ ممکن نہیں کیونکہ
بجلی کی فراہمی غیر مستقل اور اتار چڑھاؤ کا شکار ہے جو لانڈھی صنعتی علاقے اور دیگر علاقوں میں کام کرنے والے بڑے برآمد کنندگان کی حساس مشینری کے لیے خطرہ ہے۔