امریکہ کے عراق میں شدت پسندوں پر فضائی حملے ، شدت پسندوں کی بکتر بند گاڑی اور ایک ٹرک کو تباہ کر دیا گیا،’داعش‘ کے خلاف جاری امریکی کارروائی کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتی ہے مگر زمینی کارروائی نہیں کریں گے، اوباما،امریکی افواج اب کسی بھی قسم کی جنگ میں گھسیٹی نہیں جائے گی،میڈیا سے بات چیت

پیر 11 اگست 2014 03:45

بغداد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔11اگست۔2014ء)امریکہ کی فوج کے مطابق شمالی عراق میں ریاستِ اسلامیہ کے شدت پسندوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔امریکی فوج کا کہنا ہے کہ عراقی شہریوں کو شدت پسندوں کے حملوں سے بچانے کے لیے یہ کارروائی کی گئی۔امریکہ کی سینٹرل کمانڈ کے جنگی جہازوں اور مسلح ڈرون طیاروں کے حملوں میں شدت پسندوں کی بکتر بند گاڑی اور ایک ٹرک کو تباہ کر دیا گیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان گاڑیوں سے اقلیتی یزیدی فرقے کے لوگوں پر فائرنگ کی جا رہی تھی۔عراق میں امریکی صدر براک اوباما کی جانب سے فضائی حملوں کی منظوری کے بعد تیسری بار شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔سنگجار کی جانب شدت پسندوں کی پیش قدمی کے بعد ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں نے پہاڑوں پر پناہ لے رکھی ہے۔

(جاری ہے)

اس سے پہلے امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ وہ عراق اور شام میں موجود جہادی جنگجووٴں کو ’اسلامی ریاست‘ نہیں بنانے دیں گے۔

امریکہ نے عراق میں ریاست اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کی کردستان کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے فضائی حملوں میں تیزی کر دی ہے۔صدر اوباما کا کہنا ہے کہ وہ مزید فضائی حملے کرسکتے ہیں۔ تاہم انھوں نے کسی بھی قسم کے زمینی آپریشن کو رد کردیا۔

امریکی اخبار دی نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے اوباما نے کہا کہ وہ عراق اور شام میں موجود جہادی جنگجووٴں کو اس وقت تک ’اسلامی ریاست‘ قائم نہیں کرنے دیں گے جب تک ان کے پاس مقامی طور پر ساتھی موجود نہ ہوں۔

انھوں نے کہا کہ امریکہ وقتی طور پر داعش کے جنگجووٴں پر فضائی حملے کر کے انھیں علاقے سے نکال سکتے ہیں۔ تاہم حملے رکنے کے بعد جنگجو دوبارہ اس علاقے میں واپس آجائیں گے۔امریکی صدر کے مطابق عراق میں ان کے فضائی حملے اور امدادی کام بہت اہم ہے تاہم ان کا اثر محدود ہے۔انھوں نے وعدہ کیا کہ امریکی افواج اب کسی بھی قسم کی جنگ میں گھسیٹی نہیں جائے گی۔

امریکی صدر کے مطابق عراق کو جہادی بغاوت پر قابو پانے اور ملک کو مستحکم کرنے کی کوششوں میں امریکی مدد میں وقت درکار ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہو گا جس میں فوج کو رسد کی فراہمی اور سنی آبادی میں حمایت حاصل شامل ہے۔شدت پسندوں نے گذشتہ کچھ ماہ کے دوران تیزی سے عراقی علاقوں میں پیش قدمی کی ہے۔امریکہ نے سنیچر کی صبح عراقی جہادی جنگجوگروہوں سے چھپنے والی مقامی آبادی کو کھانے پینے کی اشیا ہوا کے ذریعے پہنچائی جبکہ برطانیہ سے بھی ایک کارگو جہاز امدادی سامان لیے عراق روانہ ہوگیا۔

امریکہ نے امدادی سامان سنگجار کے پہاڑوں میں جہازوں کے ذریعے پہنچایا جہاں پر 50,000 کے قریب یزیدی اقلیتی جماعت کے لوگ موجود ہیں جو کے گذشتہ ہفتے داعش کے جنگجووٴں کی علاقے میں پیش قدمی کے بعد وہاں جا چھپے تھے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ماہ کے دوران داعش کے جنگجووٴں نے عراق اور شام میں بہت بڑے علاقوں پر قبضہ جما لیا ہے۔داعش کے جنگجووٴں نے عراق میں عیسائی، کرد اور یزیدی اقلیتی جماعتوں پر بھی ظلم کیا ہے جس کی وجہ سے وہاں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ ہنگامی طور پر نقل مکانی کر گئے ہیں۔

وائٹ ہاوٴس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے عراق میں شدت پسندوں پر امریکی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ عراق کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے امریکا کی فوجی مداخلت ضروری تھی۔صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی جنگی طیاروں نے عراقی کردستان کے دارالحکومت اِربل کے نزدیک موجود شدت پسند تنظیم کے جنگجووں پر دو حملے کیے ہیں جن میں ان کے ہتھیار اور دیگر سامان تباہ کیا گیا۔

صدر اوباما نے کہا کہ جمعہ کو کیے جانے والے دونوں حملے اربیل کی طرف جنگجووں کی پیش قدمی روکنے کے لیے ضروری تھے۔خیال رہے کہ اربیل میں امریکا کا قونصل خانہ قائم ہے جب کہ ان دنوں وہاں کئی امریکی فوجی مشیر بھی موجود ہیں جو کرد فوج 'پیشمرگہ' کو سنی جنگجووں کے خلاف کارروائی میں مشاورت اور تکنیکی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

صدر اوباما نے واضح کیا کہ عراق میں امریکی فوجی کارروائی کے خاتمے کا کوئی طے شدہ وقت معین نہیں ہے اور یہ کارروائی کئی ہفتوں تک محیط ہوسکتی ہے۔

صدر نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکی طیاروں نے عراق کے انتہائی شمال مغربی علاقے 'سِنجار' کے نزدیک پہاڑیوں پر پناہ گزین ان ہزاروں افراد کی زندگیاں بچانے کے لیے کھانے اور پانی کے بنڈل بھی گرائے ہیں جو 'داعش' کی پیش قدمی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر وہاں پناہ گزین ہیں۔سنجار کے علاقے میں عراق کی عیسائی اور یزیدی اقلیت کے وہ ہزاروں افراد پناہ گزین ہیں جنہیں رواں ہفتے 'الدولت الاسلامی فی العراق والشام (داعش)' کے جنگجووں کی اچانک پیش قدمی کے باعث اپنا گھر بار چھوڑ کر بے سرو سامانی کے عالم میں محفوظ مقامات کی جانب فرار ہونا پڑا تھا۔

صدر نے کہا کہ شدت پسندوں سے بچنے کے لیے پہاڑ پر پناہ لینے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں اور انہیں وہاں سے نکالنے اور کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے میں وقت لگ سکتا ہے۔باراک اوباما نے عراق میں امریکی فوجی مداخلت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکا ایک ایسی صورتِ حال کا نظر انداز نہیں کرسکتا تھا جہاں معصوم لوگوں کو قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو۔

انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ امریکا نے 'داعش' کے جنگجووں کی پیش قدمی روکنے میں مصروف کرد فوج کے لیے اپنی امداد میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انہوں نے عراق کی صورتحال پر فرانس کے صدر اور برطانیہ کے وزیرِ اعظم سے بھی گفتگو کی ہے۔ صدر کے بقول ان رہنماوٴں نے شدت پسندی سے متاثرہ عراقی عوام کے لیے مزید امدادی سرگرمیاں انجام دینے پر اتفاق کیا ہے۔امریکی صدر نے عراق میں فوری طور پر نئی حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امریکا شدت پسندوں کے خلاف صرف فضائی حملے ہی کر سکتا ہے لیکن عراقی بحران کا پائیدار حل نکالنا امریکی فوج کا نہیں بلکہ عراقی حکومت کا کام ہے۔

متعلقہ عنوان :