بھارت میں واقع ایک گاؤں ماڈل ولیج کے طو ر پر سامنے آگیا، ماڈل ولیج میں بجلی، صاف پینے کا پانی اور پانی کی نکاسی کا پورا انتظام ہے، گاوٴں کے پرائمری سکول میں کمپیوٹر اور پورے گاوٴں میں وائی فائی موجود ہے،پنساری ماڈل ولیج کے سرپنچ اپنے دفتر سے پورے گاوٴں پر نظر رکھ سکتے ہیں،گاؤں کو ماڈل ولیج بنانے کا کام نریندر مودی کی وزارتِ اعلی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا

اتوار 14 ستمبر 2014 09:21

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔14ستمبر۔2014ء)بھارت کا میں واقع ایک گاؤں ماڈل ولیج کے طو ر پر سامنے آگیا جہاں بجلی، صاف پینے کا پانی اور پانی کی نکاسی کا پورا انتظام ہے۔ گاوٴں کے پرائمری سکول میں کمپیوٹر اور پورے گاوٴں میں وائی فائی موجود ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گجرات ماڈل کے متعلق تو بحث ابھی بھی جاری ہے کہ یہ ماڈل آخر کیا ہے۔

بہر حال احمد آباد سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ایک گاوٴں ماڈل ولیج کے طور پر سامنے آیا ہے۔اسے ماڈل ولیج بنانے کا کام نریندر مودی کی وزارتِ اعلی کے دور میں ہی شروع ہوا تھا۔بھارت کے کسی گاوٴں کا تصور ایک عام ذہن میں کچھ اس طرح ابھرتا ہے: کچے مکانات، تنگ و تاریک گلیاں، بہتی نالیاں، پانی اور بجلی کی عدم موجودگی۔اس تصویر کے برعکس یہاں بجلی، صاف پینے کا پانی اور پانی کی نکاسی کا پورا انتظام ہے۔

(جاری ہے)

گاوٴں کے پرائمری سکول میں کمپیوٹر اور پورے گاوٴں میں وائی فائی موجود ہے۔یہ ہیگجرات کا پنساریگاوٴں جہاں شہر کی تمام سہولیات مموجود ہیں اور یہ ملک کا پہلا ایسا گاوٴں ہے جو احمد آباد سے 90 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ماڈل ولیج (نمونے کاگاوٴں) کہا جا رہا ہے۔اس گاوٴں کے سرپنچ ہمانشو پٹیل کہتے ہیں 6،000 کی آبادی والے ان کے گاوٴں کے ہر گھر میں بجلی اور پانی کی سہولت ہے۔

یہاں پانی کی نکاسی کا بھی نظام ہے۔پینے کے لیے منرل واٹر (پانی) کا بھی علیحدہ انتظام ہے۔

پٹیل کہتے ہیں: ’پورے گاوٴں میں وائی فائی کنکشن ہے، جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں۔گاوٴں کی سرگرمیوں کو ہمانشو اپنے دفتر کے ایک بڑے سکرین پر بھی دیکھ سکتے ہیں اور اپنے سمارٹ فون کی سکرین پر بھی۔یہاں لاوٴڈسپییرز بھی لگے ہیں۔ مجھ سے پہلے گاوٴں کی سہولیات کا جائزہ لینے تمل ناڈو کے چیف سیکریٹری بھی آئے تھے اور پٹیل نے اپنے دفتر میں بیٹھ کر ان کی باتیں نشر کی تھیں۔

پورے گاوٴں میں مجموعی طور پر 150 لاوٴڈسپییرز لگے ہیں، ان سے سرپنچ کا اعلان لوگوں تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔سمارٹ ولیج کے سرپنچ پٹیل بھی سمارٹ ہیں۔ ان کے پاس سمارٹ فون ہے، جس کے سکرین پر گاوٴں کی سہولیات کی اطلاع سے متعلق ایپلیکیشنز ہیں۔اسے ماڈل ولیج اس لیے بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے دو پرائمری سکول بھی سمارٹ سکول ہیں۔ ہمانشو اپنے دفتر کے اندر ایک بڑے سکرین پر ان سرکاری سکولوں کو بھی مانیٹر کر رہے تھے۔

اس کے بعد فخریہ انداز میں وہ اس سکول کی لائیو تصاویر اپنے فون کی سکرین پر دکھانے لگے۔سکول کی پرنسپل بھگوت بہن پٹیل بتاتی ہیں کہ یہ سمارٹ سکول اس لیے ہے کیونکہ ’یہاں کوئی طالب علم درمیان میں پڑھائی نہیں چھوڑتا اور یہاں امتحانات کے نتائج سب سے اچھے ہوتے ہیں۔’یہ سمارٹ سکول اس لیے بھی ہے کیونکہ یہاں چھوٹے بچوں کو بھی کمپیوٹر ٹریننگ دی جاتی ہے۔

ایک بچے نے مجھے اس کا استعمال کرکے یہ بتانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر کے استعمال میں وہ ماہر ہے۔گاوٴں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں جس سے سرپنچ گاوٴں کی سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں اس لڑکے کی کلاس میں 15 طالب علم تھے اور کمپیوٹر کی تعداد بھی تقریبا اتنی ہی تھی۔ ایسا میں نے کسی گاوٴں کے سکول میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔سرپنچ کہتے ہیں: ’سنہ 2006 میں اس وقت کے وزیر اعلی اور اب ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی کے دور اقتدار میں اس گاوٴں کو سمارٹ ولیج بنانے کا کام شروع ہوا تھا۔

‘ بھی ہیں اب تک اسے سمارٹ بنانے میں کتنے پیسے خرچ کیے گئے ہیں؟ اس کے جواب میں ہمانشو کہتے ہیں کہ ’سنہ 2006 سے 2012 تک کے تمام منصوبوں میں 14 کروڑ روپے خرچ ہوئے اور یہ تمام پیسے ریاست اور مرکزی حکومتوں کے دیہی منصوبوں سے آئے۔اس گاوٴں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرکاری سکیموں کے صحیح استعمال سے ملک کے دوسرے گاوٴں بھی ترقی کر سکتے ہیں اور نمونے کے سمارٹ گاوٴں بن سکتے ہیں۔اس گاوٴں کے قیام کا مقصد گاوٴں میں ہی روزگار فراہم کرنا بھی ہے اور اس سلسلے میں کئی خانوادے اس گاوٴں میں واپس آگئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :