کوبانی میں قبضے کے لیے خونریز لڑائی، داعش کے 70 جنگجو ہلاک، داعش کے شہر میں پیش قدمی کے لیے کرد جنگجووٴں کے ٹھکانوں پر خودکش کار بم حملے، بڑے پیما نے پرہلا کتو ں کا خدشہ ،ترک حکومت نے اپنے ملک کے کردوں کو کوبانی میں لڑنے کے لیے جانے کی اجازت دینے اور انھیں مسلح کرنے سے انکار کردیا

منگل 21 اکتوبر 2014 03:47

دمشق (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21اکتوبر۔2014ء)شام کے ترکی کی سرحد کے نزدیک واقع شہر کوبانی میں حملہ آور دولت اسلامیہ (داعش) اور اس کا دفاع کرنے والے کرد جنگجووٴں کے درمیان خونریز لڑائی میں داعش کے کم سے کم ستر جنگجو مارے گئے۔ حکا م کے مطا بق داعش کے جنگجووٴں اور کردوں کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپیں جاری ہیں اور متحارب جنگجووٴں نے ایک دوسرے پر مارٹر گولے فائر کیے ہیں جبکہ داعش نے شہر میں پیش قدمی کے لیے کرد جنگجووٴں کے ٹھکانوں پر خودکش کار بم حملے بھی کیے ہیں۔

برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق کی اطلاع کے مطابق داعش کے جنگجووٴں نے گذشتہ دوروز میں کوبانی میں کردوں کے ٹھکانوں پر اڑتالیس مارٹر گولے فائر کیے ہیں۔اس دوران شامی باغیوں اور منحرف فوجیوں پر مشتمل جیش الحر کی بھی کوبانی شہر میں موجودگی اور داعش کے خلاف لڑنے کی اطلاع سامنے آئی ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں ان کی الفجراول بریگیڈ کو مبینہ طور پر شہر کے صنعتی علاقے میں موجود دکھایا گیا تھا۔

کوبانی میں موجود ایک صحافی عبدالرحمان جوق نے بتایا ہے کہ ''رات ہم نے گذشتہ ایک ہفتے کے دوران سب سے خونریز لڑائی دیکھی ہے۔داعش کے جنگجووٴں نے تین مختلف اطراف سے حملہ کیا تھا۔انھوں نے بلدیہ کی عمارت اور ایک مارکیٹ کو بھی نشانہ بنایا تھا۔اس صحافی کے بہ قول صبح کے وقت انھوں نے بازاروں اور شاہراہوں میں متعدد تباہ شدہ کاریں اور ناکارہ مارٹر گولے دیکھے تھے جو پھٹ نہیں سکے تھے۔

آبزرویٹری کی اطلاع کے مطابق داعش نے کرد ٹھکانوں پر دوخودکش کاربم حملے کیے تھے جن کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔تاہم کوبانی کا دفاع کرنے والی ملیشیا میں شامل ایک جنگجو خاتون نے کہا ہے کہ ان کے جنگجووٴں نے باردو سے بھری ان کاروں کو اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی دھماکوں سے اڑا دیا تھا۔

اس خاتون نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ رات کوبانی کے تمام علاقوں میں جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو روز میں داعش کے ستر جنگجو کردوں کے خلاف لڑتے ہوئے مارے گئے ہیں۔اس نے کوبانی کے نزدیک واقع قصبے تل ابیاب میں موجود اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ مرنے والے جنگجووٴں کی نعشیں اس قصبے کے ایک اسپتال میں منتقل کی جارہی ہیں۔تل ابیاب پر داعش کا کنٹرول ہے۔اس کے علاوہ کردوں کے ساتھ مل کر لڑنے والے الرقہ بریگیڈ کے انقلابیوں نے داعش کے پکڑے گئے دو جنگجووٴں کو گولیوں سے اڑا دیا ہے۔

ان میں سے ایک کی عمر صرف پندرہ سال تھی۔ ان دونوں کو سروں میں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ داعش کے جنگجو بھی شام اور عراق میں اپنے مخالفین کو اسی انداز میں سروں میں موت سے ہم کنار کرتے رہے ہیں۔درایں اثناء ترک حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنے ملک کے کردوں کو کوبانی میں لڑنے کے لیے جانے کی اجازت دینے اور انھیں مسلح کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ترک میڈیا نے صدر رجب طیب ایردوآن کا ایک بیان نقل کیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ''انقرہ حکومت کرد جنگجو گروپ وائی پی جی کو اس کے سیاسی ونگ پی وائی ڈی کے ذریعے مسلح نہیں کرے گی''۔انھوں نے کہا ہے کہ ''پی وائی ڈی کو داعش کے خلاف محاذ کے لیے مسلح کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ہمارے لیے یہ گروپ بھی کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کی طرح ہی ہے۔

یہ ایک دہشت گرد تنظیم ہے''۔انقرہ حکومت کو شْبہ ہے کہ وائی پی جی کے ترکی کے جنوبی علاقوں میں کردوں کے حق خوداختیاری کے لیے مسلح تحریک برپا کرنے والی جماعت کردستان ورکرز پارٹی سے تعلقات رہے ہیں لیکن ترک حکومت کے اس موٴقف کے خلاف مقامی کردوں نے اس ماہ میں شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں جن کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں پینتیس افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما نے دس لاکھ سے زیادہ شامی مہاجرین کو پناہ دینے اور ان کی دیکھ بھال کرنے پر ترکی کی تعریف کی ہے۔وائٹ ہاوٴس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق صدر اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے ہفتے کی رات ٹیلی فون پر بات کی تھی اور دونوں لیڈروں نے داعش کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنے سے اتفاق کیا تھا۔

متعلقہ عنوان :