بھارت ، اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو ہریانہ میں اکثریت لیکن مہاراشٹر میں صرف کامیابی

منگل 21 اکتوبر 2014 04:15

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21اکتوبر۔2014ء)بھارت کی دو ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بی جے پی کو کامیابی ملی ہے۔ہریانہ کی 90 نشستوں والی اسمبلی میں 47 سیٹیں جیت کر بی جے پی نے واضح اکثریت حاصل کر لی ہے جبکہ مہاراشٹر کی 288 رکنی اسمبلی میں اسے 122 نشستیں ملیں اور وہ حکومت سازی کے لیے مطلوبہ 145 سیٹیں حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

کانگریس کو 42، نیشنلسٹ کانگریس کو 41 جبکہ شیو سینا کو 63 نشستیں ملی ہیں۔مہاراشٹر اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی فتح کے بعد پارٹی کے صدر امت شاہ نے کہا: ’مودی لہر آج بھی سونامی کی طرح سب کو تباہ کرنے کے قابل ہے۔‘ہریانہ میں ان کی بات سچ ثابت ہوتی ہے لیکن اگر مہاراشٹر میں مودی لہر ہوتی تو بی جے پی کو مکمل اکثریت کیوں نہیں مل سکی؟شیوسینا نے علیحدگی کے بعد بی جے پی کی شدید مخالفت کی لیکن اس کے باوجود اسے گذشتہ انتخابات کے مقابلے کہیں زیادہ سیٹیں ملیں ہیں۔

(جاری ہے)

مہاراشٹر کے نتائج سے بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو مودی لہر تھی اور نہ ہی سونامی جیسی کوئی بات۔وزیر اعظم نریندر مودی مہاراشٹر میں بی جے پی کے سٹار کمپینر تھے اور انھوں نے ریاست بھر میں 27 انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا۔ پارٹی صرف مودی کے نام پر انتخابات لڑی تھی۔مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مودی لہر ہوتی تو پارٹی کو واضح اکثریت مل جاتی۔

بی جے پی کے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ ان کی پارٹی مطلوبہ 145 سیٹوں سے زیادہ نشستیں لانے میں کامیاب ہوگی جبکہ بی جے پی کے کئی رہنما یہ سننے کے لیے تیار ہی نہیں تھے کہ ان کی پارٹی کو اکثریت نہیں مل سکے گی کیونکہ وہ بھی دل ہی دل میں مودی کے کرشمے پر بھروسہ کر رہے تھے۔مبصرین دوسری توجیہ یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر مودی لہر ہوتی تو انتخابات کے دوران مودی کے خلاف بولنے والوں کو شکست کا سامنا ہوتا لیکن شیوسینا کے رہنما ادھو ٹھاکرے بار بار نریندر مودی کے خلاف بولتے رہے اس کے باوجود شیوسینا کو گذشتہ انتخابات سے زیادہ سیٹیں ملیں۔

کانگریس کی بری شکست ہوئی لیکن مودی راشٹروادی کانگریس پارٹی کو تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔بہر حال یہ تو تسلیم کرنا ہی ہوگا کہ نریندر مودی کی بدولت ہی بی جے پی کو زیادہ سیٹیں ملی ہیں۔ مودی کی لہر نہیں تھی لیکن بی جے پی کی اس جیت میں ان کا بڑا کردار ضرور تھا۔ان کی تعریف کرنے والوں کی کمی نہیں لیکن اسمبلی انتخابات میں مئی کے عام انتخابات والی بات نہیں تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ ان کے خلاف بولنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔انتخابات کے دوران مہاراشٹر بھر میں یہ نظر آیا کہ لوگ مودی حکومت سے بہت زیادہ خوش نہیں ہیں۔ونے کے نزدیک کے ایک گاوٴں میں ایک کسان کی لڑکی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ’مودی نے کسانوں کے لیے اب تک کچھ نہیں کیا اس لیے میرا ووٹ راشٹروادی کانگریس پارٹی کو جائے گا۔‘بعض لوگوں نے کہا کہ مودی بولتے زیادہ ہیں اور ’الفاظ کے بادشاہ‘ ہیں لیکن کام کم کرتے ہیں۔

بعض لیڈروں نے مودی کو ایک اچھا ’اداکار‘ قرار دیا جبکہ بعض نے طنز کرتے ہوئے انھیں صرف ’گجرات کا وزیر اعظم‘ کہا۔اب مہاراشٹر میں حکومت سازی ایک مسئلہ ہوگی۔ سخت گیر ہندو جماعت شیو سینا ان کی حمایت کرے گی یا پھر سیکولرزم کا دم بھرنے والی راشٹروادی کانگریس پارٹی بی جے پی کے ساتھ آئے گی یا پھر بی جے پی کے علاوہ تینوں پارٹیاں مل کر حکومت سازی کر لیں گی؟۔