سینیٹ میں سانحہ پشاور پر بحث شروع ، ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ قرار ،پوری قوم اس سانحہ میں ڈوبا ہوا ہے،یہ دہشتگرد پتھر دل انسان تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل عام کیا، غفور حیدری ،اسلام کے نام پر بندوق اٹھا کر قتل کرنے والوں کی شدید مذمت کرتے ہیں، بزنجو ، معصوم بچوں کا قتل شریعت محمدی کے خلاف ہے ، صالح شاہ اور دیگر کا اظہار خیال

منگل 23 دسمبر 2014 08:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔23دسمبر۔2014ء)سینیٹ نے سانحہ پشاور پر بحث شروع کردی،مولانا غفور حیدری نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سانحہ پشاور اس ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ ہے،پوری قوم اس سانحہ میں ڈوبا ہوا ہے،یہ دہشتگرد پتھر دل انسان تھے جنہوں نے معصوم بچوں کا قتل عام کیا،فوجیوں کے بچوں کو چن چن کر شہید کرنے والے غیر انسان تھے جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کے قومی جرنیلوں نے حکومتوں پر غیر قانونی قبضہ کرکے ملک کے حالات ابتر بنا دئیے،پارلیمنٹ نے کئی قراردادوں کے ذریعے سیکورٹی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ان قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔حکومت کو سخت پالیسی بنانا ہوگی،انہوں نے مولانا فضل الرحمان پر قاتلانہ حملوں کی تحقیقات نامکمل ہونے پر شدید تشویش ظاہر کی،حکومت کو مولانا پر حملوں کی تحقیقات کرکے اصل کرداروں کی نشاندہی کرنا ہوگی،ملک میں سینکڑوں علماء اور جے یو آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو شہید کیا گیا لیکن قاتل گرفتار نہیں ہوئے۔

(جاری ہے)

دہشتگرد کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے،جے یو آئی نے ماضی میں جرگوں،علماء کنونشن کے ذریعے دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے کوششیں شروع کیں،حکومت جو بھی فیصلہ کرے گی ہماری جماعت حمایت کرے گی،الزامات لگانے سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے گھمبیر ہوجائے گا۔سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا کہ اسلام کے نام پر بندوق اٹھا کر قتل کرنے والوں کی شدید مذمت کرتے ہیں،تمام مذہبی جماعتوں نے مثبت کردار ادا کیا۔

سینیٹر طاہر مشہدی نے سانحہ پشاور پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ طالبان کے درندوں نے بے گناہ معصوم 135بچوں کو بربریت سے قتل کیا جس کی مذمت کی جاتی ہے،یہ حملہ حقیقت میں پاکستانی قوم کے وجود پر حملہ کیا ہے،حکومت ذمہ داروں کو پکڑ کر سرعام پھانسی پر لٹکایا جائے،یہ حکومت کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے،صوبائی حکومتیں بھی بچوں کو بچانے میں ناکام ہوگئی ہے،مقامی پولیس خفیہ اداروں اور عوام کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے،پاک فوج دنیا اور اسلام کی سب سے بہادر فوج ہے اس کو احکامات واضح دئیے جائیں،ملک سے اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرنا ہوگی،حکمرانوں کو طالبان بارے کھلے ذہن کے ساتھ سامنے آنا ہوگا اور اس ناسور کوختم کرنا ہوگا ،ملک کے بعض حلقے فوجیوں کو شہید کہنے سے بھی کتراتے ہیں،سرکاری گھروں میں رہنے والے طالبان کی حمایت کر رہے ہیں،پوری قوم اب طالبان کے خلاف لڑنے کو تیار ہے،حکومت واضح پالیسی دے،طالبان کے خلاف فوجی آپریشن نیک شگون ہے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں،ملک میں مدرسوں کی اکثریت اچھی ہے لیکن بعض مدرسے نفرت پیدا کررہے ہیں ملک میں ایک جیسا نصاب تعلیم ہونا چاہئے،اس کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی سپورٹ کیا جائے،طالبان قوم اور ملک کے دشمن ہیں ان کا صفایا کرنا ہوگا،حکمران طالبان سے ڈرنا نہیں چاہتے،طالبان کو ختم نہ کیا تو آئندہ والی نسلوں کو کیا جواب دیں گے،حکومت کمیٹیاں بنا کر طالبان کے خلاف آپریشن کی تاخیر نہ کرے،فوری اقدامات کئے جائیں،پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ طالبان نے سفاکی بربریت کے ساتھ بچوں کو شہید کیا اس واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ تمام جماعتوں نے تحریک طالبان کو دشمن قرار دیا ہے،وزیرداخلہ نے ماضی میں سیکورٹی پالیسی دیکر دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام کا وعدہ کیا تھا لیکن پھر بھی یہ واقعہ رونما ہوگیا،حکومت کے سانحہ پشاور پر پالیسی پر بہت سے شکوک وشبہات ہیں،فرحت اللہ بابر نے مزید کہا کہ پھانسیاں شارٹ ٹرم جواب ہے لیکن ہمیں ملک سے مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنا ہوگا،یہ دشمن بیرونی نہیں بلکہ پاکستان کے اندر ہے،داعش،بوکوحرم اورالقاعدہ اور طالبان کا ایجنڈا مشترکہ ہے،تحریک طالبان پاکستان کو ختم کرکے خلافت قائم کرنا چاہتے ہیں وہ پاکستان کے ہر قسم کے سٹرکچر کے خدوخال کو تباہ کرنا چاہتے ہیں،تحریک طالبان کے ہمدردوں کو بھی ختم کرنا ہوگا۔

مولانا عبدالعزیز کو مسجد سے علیحدہ کرنا ہوگا،علامت کے طور پر انہیں لال مسجد سے برطرف کیا جائے گا تاکہ یہ پیغام تمام ان قوتوں کو جانا چاہئے کہ ہم اب انہیں برداشت نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ جہادی انفراسٹرکچر کو ختم کرنا ہوگا،ملک سے جہادی عناصر کو فوری ختم کرنا ہوگا،اگر سانپ کو پالیں گے تو وہ ہم پر بھی حملہ کرے گا اور ہمیں بھی کاٹے گا،غیر ملکی اور سیکورٹی ایجنڈا کی آڑ میں انتہا پسندوں کی حمایت اور سرپرستی نہیں کرنی چاہئے اگر دشمن ملک میں ان لوگوں کو بھیجیں گے تو دشمن ملک بھی ہم پر ایسی ضرب لگائے گا،جنوبی پنجاب میں برسرپیکار دہشتگرد تنظیموں کو قابو کرنا ہوگا،عصمت اللہ معاویہ نے بھارت میں دہشتگردی کے اقدامات کرنے کا اعلان کیا،حکومت اور دیگر اداروں نے مذمت نہیں کی،ہم ان کرداروں کو ہرگز پناہ نہیں دینی چاہئے،ہمیں اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوں گے،دہشتگردوں کے خلاف جنگ کی سربراہی سول لیڈر شپ کو کرنی چاہئے،فوج جو ضرب عضب کر رہی ہے اس کو ہم سلام کرتے ہیں،اس آپریشن میں مارے جانے والے دہشتگردوں کے نام کو قوم کو بتانا چاہئے تاکہ قوم اس خبروں پر یقین کرے،فوج کو افغانستان میں دہشتگردوں کے پیچھا کرنے کیلئے افغانستان کے اندر کارروائی نہیں کرنی چاہئے،اگر پاکستان نے ایسا کیا تو یہ ہمارے کیلئے دھچکا ہوگا اور بھارت کو ایک بہانہ مل جائے گا اور پاکستان کے اندر کارروائی کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ سلیمان تاثیر کے قاتل کو بھی پھانسی دینا چاہئے جس کو عدالت نے پھانسی سنائی ہے،دہشتگردی اور انتہا پسندی کو فروغ دینے والے مدرسوں کے خلاف آپریشن کرنا ہوگا،حکومت کو ہمسایہ ملک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہوگا،ممبئی حملے میں ملوث ملزمان کے ساتھ قانون کے مطابق کارروائی کرے،کالعدم تنظیمیں جو اب دوسرے ناموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں ان پر پابندی لگانا ہوگی جیسا کہ لشکر طیبہ جو کالعدم ہوگئی تھی اب دوسرے نام سے کام کر رہی ہے،ڈاکٹر خالد قیوم سومرو نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ طالبان نہ آئین،نہ مسلمان اور نہ پاکستان کے وفادار ہیں،سیاسی جماعتوں کا منافقتچھوڑ کر طالبان کے خلاف متحد ہونا اچھی بات ہے،مذہبی جماعتوں نے بھی طالبان کے اقدامات پالیسی کو غیر اسلامی قرار دینا نیک شگون ہے،شہید بچوں کے والدین کے سامنے ہم شرمند ہیں،حکومت ملک بھر سے تمام دہشتگردوں کا صفایا کرے،یہ دہشتگرد پاکستان کے تشخص پر ایک دھبہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی حمایت کرنے پر لال مسجد کے خطیب مولانا عبدالعزیز کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں۔طالبان کیخلاف ایک بھرپور آپریشن کرکے انہیں ختم کرنا ہوگا،طالبان ایک فتنہ ہے جس کا فوری خاتمہ ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پر قاتلانہ حملہ کرنے والے لوگوں نے ہی ڈاکٹر خالد سومرو کو قتل کیا ہے۔فاٹا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر صالح شاہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ سانحہ پشاور پرہم پوری قوم کے غم میں برابر کے شریک ہیں،معصوم بچوں کا قتل شریعت محمدی کے خلاف ہے جسکی بھرپور مذمت کی جانی چاہئے لیکن دہشتگردی کے واقعات کو مذہب کے ساتھ منسوب کرنا بھی درست نہیں ہے،مشرف دور میں بھی مذہب کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا جس کے بعد نصاب سے مذہبی تعلیمات کو ختم کرنے کا مطالبہ سامنے آیا۔

پشاور واقعہ سیکورٹی غفلت کے باعث پیش آیا،ریاست اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی ہے،جو دہشتگرد جنہیں پھانسی دی جارہی ہے یہ مدارس کے طالب علم نہیں رہے ہوں گے بلکہ سکول کے فارغ التحصیل ہوں گے لیکن ان دہشتگردوں کو بھی دین سے منسوب کیا جارہا ہے

متعلقہ عنوان :