نئے سعودی شہنشاہ شاہ عبداللہ کی بادشاہت کے سو دن پورے ہو گئے،شاہ سلمان نے سعودی سیاست کو کسی اور انداز میں چلانے کا راستہ دکھایا

منگل 5 مئی 2015 08:25

ریاض(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔5 مئی۔2015ء) سعودی عرب کے نئے بادشاہ کو تخت سنبھالے ابھی سو دن ہی ہوئے ہیں لیکن اس دوران انھوں نے کئی اہم قدم اٹھائے ہیں، جن میں یمن پر فضائی بمباری کا آغاز کرنا، بعض قدامت پرستوں کو ترقیاں دینا، ایک اندازے کے مطابق لوگوں میں 32 ارب ڈالر بانٹنا اور اپنے بیٹے کے تخت پر بیٹھنے کی راہ ہموار کرنا شامل ہیں۔شاہ سلمان کی حکمرانی کے فیصلہ کن آغاز میں کابینہ میں بڑی تبدیلیاں کرنا بھی شامل ہے۔

انھوں نے اپنے بھتیجے اور طاقتور وزیرِ داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد، اور اپنے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کیا ہے۔ یہ پالیسی ان کے پیش رو شاہ عبداللہ سے واضح طور پر مختلف ہے۔ایک ایسا نظام جو بتدریج تبدیلی اور اشرافیہ کے اتفاقِ رائے سے چلتا رہا ہو، اسے شاہ سلمان نے کسی اور انداز میں چلانے کا راستہ دکھایا ہے اور ان کے ابتدائی اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایران سے درپیش علاقائی چیلنج کے ساتھ ساتھ داخلی سیاسی دباوٴ کا بھی مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کو ایک خطرہ القاعدہ سے تھا۔ آج سے دس سال پہلے وہ خطرناک حملے کیا کرتی تھی لیکن اس وقت وہ بہت کمزور ہوگئی ہے۔دوسری جانب یہ دیکھتے ہوئے کہ ’عرب سپرنگ‘ کے بعد شام، لیبیا اور مصر میں کیا ہوا، معتدل سوچ رکھنے والے بھی دباوٴ کا شکار ہیں۔جمہوریت نواز سعودیوں کا کہنا ہے کہ جو وہ دیکھ رہے ہیں اس کے مطابق نظام کی مکمل تباہی کی نسبت بدعنوان اور احتساب سے بالاتر شاہی حکمرانی زیادہ بہتر ہے۔

القاعدہ اور لبرل جماعتوں کو سعودی معاشرے میں اقلییتی جماعتوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور انھیں بہت ہی محدود حمایت حاصل ہے۔1980 کی دہائی میں بہت سے سعودی جب اپنے ہم وطنوں کو افغانستان میں کلاشنکوف اٹھائے دیکھتے تو انھیں ہیرو سمجھتے تھیقومی استحکام کو جانچنے کا بہترین ذریعہ سعودی خانوادے اور وہابی علما کے درمیان تعلقات ہیں، جو اس وقت شدید تناوٴ کا شکار ہیں۔

بہت سے وہابی اب شاہی خاندان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور انھیں بدعنوان، سیکیولر اور مغرب زدہ قرار دیتے ہیں۔ماضی میں علما کو باقی دنیا میں اس وقت تک اسلام پھیلانے کی اجازت تھی جب تک اس سے خود انھیں کسی قسم کی مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑے، لیکن القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ کے اثر و رسوخ سے سعودی شاہی شخصیات اور بہت سے لوگ جہاد پھیلانے کی پالیسی سے خوفزدہ ہو گئے ہیں۔

سنہ 1980 کی دہائی میں جب بہت سے سعودیوں نے اپنے ہم وطنوں کو افغانستان میں کلاشنکوف اٹھائے دیکھا تو وہ انھیں ہیرو سمجھنے لگے لیکن جب آج وہی مناظر وہ اپنے قریبی علاقوں شام اور ایراق میں دیکھ رہے ہیں تو وہ یہ سوچ کر فکر مند ہیں کہ کسی بھی وقت یہ جہادی اپنے جہاد کو وسعت دے کر سعودی عرب کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔معاشی تناظرتمام مذہبی اور نظریاتی مسائل سے ہٹ کر جو چیز پوری دنیا کے لوگوں کے لیے بھی قابلِ تشویش ہے وہ ہے معیشت۔

700 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر کے ہوتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شاہی حکمران آسانی سے اپنے شہریوں کو تحفے تحائف سے نواز کر کسی بھی سیاسی بحران سے نکل سکتے ہیں۔سعودیوں کو بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ویٹروں کے طور پر کام کرنے کو بھی تیار ہیں تاہم یہ اتنا بھی آسان نہیں ہو گا جتنا کہ دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ جب شاہ عبداللہ نے عرب سپرنگ کے دوران اسی قسم کی دریا دلی کا مظاہرہ کیا تھا تو سعودی عرب میں مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا۔

شاہ عبداللہ نے اس دوران کم سے کم 130 ارب ڈالر خرچ کیے تھے۔اس کے باوجود تین کروڑ کی آبادی میں بہت سے سعودی افراد قطر اور کویت کے امیر لوگوں جیسی زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔سعودیوں کو بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے وہ ویٹروں کے طور پر کام کرنے کو بھی تیار ہیں۔ریاست کی دریا دلی کا دارو مدار تیل پر ہے کیونکہ سعودی حکومت کو 90 فیصد آمدن تیل سے ہوتی ہے لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ریاض کو 39 ارب ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔

اس صورت حال میں بعض لوگوں کا خیال ہے سعودی عرب کو کم آمدن سے ساتھ گزربسر کرنے پر تیار ہونا چاہیے، جب کہ دوسرے کہتے ہیں کہ سعودیہ ہمیشہ دوسرے ممالک کی نسبت سستا تیل پیدا کرتا رہے گا اور جب تک مغرب کو تیل کی ضرورت ہے، سعودیہ انھیں تیل فراہم کرتا رہے گا۔سعودی عرب کی آمدنی کو جو ایک ہی خطرہ درپیش ہے وہ یہ کہ تیل اور گیس کا کوئی نعم البدل سامنے آ جائے جس سے دنیا کا روایتی ایندھن پر انحصار ختم ہو جائے۔اسی ضمن میں سعودی عرب کے وزیرِ تیل شیخ یمنی نے 1970 کے دوران کہا تھا کہ ’پتھر کا دور پتھروں کی کمی کی وجہ سے ختم نہیں ہوا تھا اور تیل کا دور دنیا سے تیل کے ختم ہونے سے بہت پہلے ختم ہو جائے گا۔‘