ملائشیا ء،جنوب مشرقی ایشیائی ممالک مہاجرین کے حوالے سے عالمی اپیلیں مسترد

اتوار 17 مئی 2015 07:42

کوالالمپور(اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔17 مئی۔2015ء)ملائشیا نے مہاجرین کی ایک کشتی روک دی ہے، جسے تھائی لینڈ کی بحریہ نے ریسکیو کرنے کی بجائے اپنی ملکی سمندری حدود سے باہر نکال دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے مسلسل اپیلیں کی جا رہی ہیں کہ مہاجرین کی زندگیاں بچائی جائیں۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کی اپیلیوں کے باوجود جنوب مشرقی ایشیائی ممالک روہنگیا اور بنگلہ دیشی مہاجرین کی کشتیوں کو بچانے اور پناہ دینے کی بجائے انہیں اپنی سمندری حدود سے بین الاقوامی پانیوں کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔

انسانی اسمگلروں کے خلاف تھائی حکومت کے آپریشن کے بعد یہ اسمگلر ہزاروں مہاجرین سے بھری کشتیوں کو بحیرہء انڈیمان میں چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔ ان مہاجرین میں سے بہت سے شدید بھوکے اور بیمار ہیں۔

(جاری ہے)

اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایسی ہی ایک کشتی پر سوار خواتین سمیت دیگر افراد تیز دھوپ میں کشتیوں کے اوپری حصوں میں ہاتھ ہلا ہلا کر مدد طلب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

تاہم تھائی حکومت نے اس کشتی کے خراب ہونے والے ایک انجن کو ٹھیک کر کے اس پر ایندھن اور کچھ خوراک ترسیل کر کے اسے دوبارہ بین الاقوامی پانیوں کی جانب دھکیل دیا۔ سمندری گشت پر معمور ایک تھائی افسر کا کہنا ہے کہ ان مہاجرین کا کہنا تھا کہ وہ ملائشیا جانا چاہتے ہیں: ”ہم نے ان کی کشتی کا انجن ٹھیک کر دیا اور انہیں بتا دیا کہ ملائشیا کس جانب ہے۔

“اس عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ یہ کشتی بین الاقوامی پانیوں میں چھوڑے جانے کے بعد اسے ملائشیا نے روک لیا۔فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ملائشیا نے ان مہاجرین کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ تاہم اس سے قبل ملائشیا کی حکومت کی جانب سے دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا تھا کہ وہ غیرقانونی تارکین وطن کی حامل کشتیوں کو ملک میں داخلے کی اجازت نہیں دے گی اور ایسی کشتیوں کو دوبارہ کھلے پانیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔

کوالالمپور حکومت کے مطابق ملائشیا غیرقانونی مہاجرین کی بڑی تعداد قبول کرنے کا متحمل نہیں ہے۔مہاجرین کی عالمی تنظیم نے علاقائی حکومتوں پر تنقید کرتے ہوئے اسے ’سمندری پنگ پانگ‘ کھیل سے تشبیہ دی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق یہ حکومتیں ان مہاجرین کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کر رہی ہیں۔اس سے قبل اقوام متحدہ نے رواں ہفتے علاقائی حکومتوں پر زور دیا تھا کہ وہ کسمپرسی کے شکار ان مہاجرین کے لیے اپنی سرحدیں بند نہ کریں، کیوں کہ انہیں مدد کی ضرورت ہے۔