این اے 122کا کیس اہم نوعیت کا کیس تھا ، فیصلہ پہلے لکھوا دیتے تو لیک ہونے کا خدشہ تھا‘ جج الیکشن ٹربیونل کاظم علی ملک،فریقین کے وکلا ء کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ مختصر فیصلہ نہیں ہو گا، تفصیلی ہو گا‘ اس لئے یہ تاثر غلط ہے کہ اس فیصلے میں دانستہ طور پرتاخیر کی گئی‘ وضاحتی پریس نوٹ

منگل 25 اگست 2015 09:34

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔25اگست۔2015ء) الیکشن ٹربیونل کے جج کاظم علی ملک نے لاہور سے قومی اسمبلی حلقہ این اے 122کے فیصلے میں تاخیر پر اپنے وضا حتی پریس نوٹ میں کہا ہے کہ این اے 122کا کیس اہم نوعیت کا کیس تھا جس کا فیصلہ پہلے لکھوا دیتے تو لیک ہونے کا خدشہ تھا، فریقین کے وکلا ء کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ مختصر فیصلہ نہیں ہو گا، تفصیلی ہو گا اپنے وضاحت میں کاظم علی ملک نے کہا کہ اس لئے یہ تاثر غلط ہے کہ اس فیصلے میں دانستہ طور پرتاخیر کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض میڈیا چینلز کی طرف سے اسے غلط رنگ دینے کی کو شش کی گئی ہے۔الیکشن ٹربیونل کے جج کاظم علی ملک نے کہا کہ اسی صفحات کا جامع اور تفصیلی فیصلے میں وقت لگتا ہے تبصرے کرنے والے عدالتی کارروائی سے ناواقف ہیں۔

(جاری ہے)

وضاحتی بیان انہوں نے کہا کہ عمران خان اور سردار ایاز صادق کے درمیان انتخابی تنازعہ کا مختصر نہیں بلکہ تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا ہے اور یہ طے کیا گیا تھا کہ کیس کا فیصلہ سنانے سے ایک یا دو گھنٹے پہلے فریقین کے وکلا کو ٹیلی فون کے ذریعے فیصلہ سنانے کے بارے میں آگاہ کیا جائے اور فیصلہ سنانے کے لیے ٹربیونل کی جانب سے کوئی وقت نہیں دیا گیاجبکہ اسی صفحات کے فیصلے میں ووٹوں کے اعداد وشمار کو سوفیصد درست درج کرنے کے عمل کو منٹوں اور گھنٹوں میں مکمل نہیں کیا جاسکتا۔

کاظم علی ملک نے اپنے بیان میں یہ سوال اٹھایا کہ تحزیہ نگار ان کا فیصلہ پڑھنے کے بعد یہ بتائیں کہ یہ فیصلہ لکھانے کے لیے کتنا وقت درکار ہوتا۔ٹربیونل کا کہنا ہے کہ فیصلہ سنانے کی تاریخ سے پہلے فیصلہ لکھانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عملے کو فیصلہ سنانے سے چار یا پانچ دن پہلے یہ بتایا جائے کہ فیصلہ کیا ہونے والا ہے۔ الیکشن ٹربیونل کے جج نے کہا کہ فیصلہ صرف فیصلہ کرنے والے کے ذہین میں ہوتا ہے اس لیے عدالتی اہلکاروں اور دیگر افراد کی طرح فیصلہ والے دن ہی فیصلے سے آگاہ کیا جاتا ہے۔

انہوں نے وضاحت کی فیصلے والے دن جج اور ان کا عملہ عدالتی کمرے کو بند کرکے فیصلہ تحریر کرتا ہے اور فیصلہ مکمل ہونے پر ہی کمرے کی کنڈی کھولی جاتی ہے۔اگر اس بات کی تصدیق کرنی ہو تو خود سیشن کورٹ جاکر اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا۔