خاندانی منصوبہ سازی ماں اور بچے کی صحت پر کیسے اثر اندازہوتی ہے ؟
بدھ 7 دسمبر 2022 18:38
رضیہ ایک دور دراز پسماندہ علاقے کی رہنے والی خاتون ہے جس کے سات بچے ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے اس کی صحت روز بروز گر رہی ہے جب کہ اس کا میاں جو ایک دیہاڑی دار مزدورہے اس کے لیے تمام بچوں کے اخراجات پورے کرنا اور انہیں تعلیم دلانا ممکن نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی سب سے بڑی بچی جس کی عمر 11 سال ہے اس کو کسی کے گھر کام کاج پر لگا دیا جب کہ اپنے چھوٹے بیٹےکو بھی ا سکول داخل نہیں کروایا۔ بچوں کی کفالت اور دیکھ بھال کی وجہ سے رضیہ کو آرام کا بالکل بھی وقت نہیں ملتا۔نہ ہی وہ ہر بچے کو پوری توجہ اور دیکھ بھال فراہم کر سکتی ہے ۔
(جاری ہے)
یعنی بچوں کی زیادہ تعداد ماں اور بچوں دنوں کے لیے ایک ایسا بوجھ بن چکی ہے جس سے جان چھڑانا اب ممکن نہیں۔
یہ ایک ایسی کیس اسٹڈی ہے جس کی مدد سے ہم بہت سے لوگوں کو خاندانی منصوبہ سازی کی طرف راغب کروا سکتے ہیں۔موجودہ حالات میں رضیہ کے لیے یہ ایک المیہ سے کم نہیں کہ غربت اور برے دنوں کا چکر اب اگلی نسل میں منتقل ہو نے والا ہے ۔ رضیہ جیسے لاکھوں خاندان ہیں جو خاندانی منصوبہ سازی نہ ہونے سے اب حالات کے گرداب میں بری طرح پھنس چکے ہیں جب کہ ان گھرانوں میں ماوں اور بچوں کی صحت بھی سنگین مسائل سے دوچار ہے ۔
کسی بھی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں آبادی کی صحت اور تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ ماں ہر معاشرے میں خاندان اور گھر کا محورہوتی ہے یعنی پورے گھر کی خوشیاں اور رونقیں ماں کی صحت سے جڑی ہیں اور بچے تو ہر آنگن کی خوشیاں ہیں ۔ایسے میں کسی ایک بچے کی صحت کی خرابی پورے گھر کے لیے پریشانی کا سبب بن جاتی ہے ۔اور دیکھنے والے بھی حسرت بھری نگاہوں سے کہتے ہیں کہ کاش یہ بچہ اس طرح بیمار نہ ہوتا۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے خواندگی کے مسائل کے ساتھ ساتھ قدامت پسند رویوں کا بھی شکار رہا ہے جس کی وجہ سے جدید سوچ ، ترقی اور خوشحالی کے لیے درکار اسباب پر توجہ نہیں دی گئی ۔ ایک انٹرنیشنل سروے کے مطابق پاکستان دنیا بھر میں سرفہرست ملک ہے جہاں پر زچگی کے دوران ماں زندگی کی بازی ہار جاتی ہے اسی طرح 1000 میں سے 21 بچے نوزائیدگی میں ہی وفات پا جاتے ہیں جب کہ 1000میں سے40 بچے عمر کے پہلے پانچ سال میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان میں بچوں کی گھروں پر پیدائش ہے جو کہ 70فیصد کے لگ بھگ ہے ۔اسی طرح ایمرجنسی میں ماں اور بچے کو بروقت طبی امداد نہیں مل پاتی جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوتی ہے اور یوں متوفی اپنے خاندان کے لیے دکھ اور کرب کا ایک انمٹ خلا چھوڑ جاتے ہیں۔
یہ ایک انتہائی تشویشناک اور خراب صورتحا ل ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں کئی لاکھ خاندان پستی کی گہرائیوں میں مسلسل دھنس رہے ہیں۔ان میں نسلس در نسل غربت و فلاس کے ڈیرے ہیں۔ تعلیم کی کمی ان خاندانوں میں جہاں خاندانی منصوبہ سازی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے وہیں ان خاندانوں میں کسمپرسی ، لاچارگی اور کم تر معیار زندگی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے توچین جہاں ایک بچہ ایک خاندان کی پالیسی رائج ہے وہاں پر سختی سے منصوبہ سازی پر عمل کرایا جاتا ہے ۔جب کہ دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں کی تعداد پر پابند ی تو نہیں مگر پھر بھی بچوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور ایک چھوٹے گھرانے کو ترجیح دی جاتی ہے ۔وہاں پر ضبط تولید کے جدید طریقے موجود ہیں اور ان میں خواتین صحت اور ترقی کے ہر میدان میں آگے ہیں۔ان ملکوں میں فی کس آمدنی کے ساتھ ساتھ جی ڈی پی بھی کئی سو ارب ڈالر ہے جب کہ ہمارا ملک ابھی تک دو وقت کی روٹی کے چکر سے نہیں نکل پا رہا ۔ ایک خیر خواہ کے طور پر نئے جوڑوں اور جن کی شادی ہو چکی ہے ان کو بھی بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ سازی پر عمل کریں اور ماں اور بچے کی بہتر صحت کے لیے خاندانی منصوبہ سازی پر عمل کر کے ان کی خوشحالی کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے ۔
بہتر یہ ہے کہ ہم نصاب تعلیم میں خاندانی منصوبہ سازی کی اہمیت کو شامل کریں تاکہ نئی نسل کو اس بارے میں آگہی اور شعور سے ہمکنار کیا جا سکے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ خاندانی منصوبہ سازی کے بارے میں ایک علماء کانفرنس کا انعقاد کرے اور تمام مکاتب فکر کے علماء پر زور دیا جائے کہ وہ اس معاملے میں عوام کی رہنمائی کریں ۔ایران ، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا ایسے ممالک ہیں جن کی آبادی کی شرح افزائش میں کمی کا کریڈٹ علما کو جاتا ہے ۔ ہمیں بھی اس کامیاب تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
خاندانی منصوبہ سازی کے لیے درکارسہولیات
اگر چہ ہمار ے ملک میں دیہی سطح پر فلاحی اداروں اور مراکز صحت میں ضبط تولید اور مانع حمل ادویات کے استعمال سے خاندانی منصوبہ سازی کی سہولیات موجود ہیں ۔ جب کہ 90 ہزار سے زائد لیڈی ورکرز اور لیڈی ہیلتھ وزیٹرز بھی گھر گھر جا کر خاندانی منصوبہ بندی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔اس وقت مانع حمل ادویات اور جدید طریقے موجود ہیں جو اپنا کر آپ بھی باسہولت طریقے سے خاندانی منصوبہ سازی کے ذریعے ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنا سکتے ہیں۔پرائیویٹ کلینکس کے علاوہ تمام سرکاری مراکز صحت اور فلاحی مراکز میں تولیدی صحت کی خدمات مفت فراہم کی جاتی ہیں لیکن اب بھی ہمارے ملک میں بچوں کی پیدائش میں وقفہ اور خاندانی منصوبہ سازی اس مثالی سطح تک نہیں ہے جتنی کہ پڑوسی ملک بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں ہے ۔
ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ ماں اور بچے کی صحت کے لیے بچوں کی پیدائش میں کم سے کم پانچ سال کا وقفہ ہونا چاہیے۔ اس سے نہ صرف بچے کی پرورش، صحت اور غذا بہتر ہو گی بلکہ ماں کی صحت بھی بہتر ہو گی اور خاندان خوشیوں سے بھر سکتا ہے ۔
اس وقت ہمارے ملک کا 30 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثرہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے ہیں اور تمام وسائل ان افراد کی دوبار ہ آبادکاری میں استعمال کیے جا رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق سیلاب متاثرین میں سات لاکھ سے زیادہ خواتین امید سے ہیں اور ایک ایمرجنسی کی کیفیت ہے کہ ان ماؤں اور ان کے بچوں کو کیسے بچایا جا ئے ۔جہاں ایک طرف حکومت اور امدادی ادارے سیلاب متاثرین کی بقاء کے لیے کوشاں ہیں وہاں پر حاملہ خواتین اور ان کے بچوں کے لیے وسائل کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے ۔ایسے میں سیلاب متاثرین کو چاہیے کہ وہ موجودہ خاندان کی بقاء پر توجہ دیں نہ کہ خاندان میں اضافہ کا سوچیں ۔ یہ وقت سوچ سمجھ کر خاندانی منصوبہ سازی پر عمل کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں ہیلپ لائن 080011171پر آپ کال کر کے کسی بھی دن اوقات کار کے دوران مفت مشورہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہےکہ ہم خاندانی منصوبہ سازی کے لیے اپنے فرائض ادا کریں چاہے ہم سیلاب سے متاثرہ لوگوں میں شامل ہوں یا نہ ہوں۔یہ ہماری اجتماعی بہتری اور فلاح کے لیے ایک عظیم قدم ہو گا۔آج ہمیں زیادہ افراد کی نہیں بلکہ زیادہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک کی ترقی کے لیے اثاثہ ثابت ہو سکیں اور اس کے لیے ایسے وقت میں ، وقت ہے خاندانی منصوبہ سازی کا۔
Browse Latest Health News in Urdu
ڈریپ نے معدے کے علاج کی دوا کا ایک بیچ غیر معیاری قرار دے دیا
ڈاؤ یونیورسٹی نے کتے کے کاٹے کی ویکسین اینٹی ریبیز ویکسین" ڈاؤ ریب" تیار کرلی
پاکستان میں مقامی طور پر انسولین کی پیداوار شروع کرنے کا مطالبہ
موٹاپے کے سبب کم عمر لڑکیوں میں جوڑوں کی تکلیف کا انکشاف
سائنسدانوں نے پاکستان میں کوویڈ-19 کے انفیکشن سے کم نقصانات ہونےکی وجوہات ظاہرکردیں
پاکستان میں پہلی بارایک جگر کی دو مریضوں میں پیوندکاری اورلبلبے کی ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ
6 گھنٹے سے کم کی نیند ذیا بیطس کے اضافی خطرات کا سبب قرار
ہومیو پیتھک طریقہ علاج سے ہزاروں مریض بغیر آپریشن کے شفا یاب ہو رہے ہیں ، صدرڈاکٹرخادم حسین کھیڑا
’’ پنز‘‘مفت ادویات کی فراہمی میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں میں پہلے نمبر پرآگیا
ہارٹ اٹیک کے مریضوں کیلئے پہلا گھنٹہ انتہائی اہم ہوتا ہے،بروقت علاج سے زندگی بچائی جاسکتی ہیں، ایم ..
میو ہسپتال میں گردوں کی پتھریوں کیلئے جدید طریقہ علاج پی سی این ایل اپنا لیا گیا
دوگھنٹے سے زیادہ سمارٹ فون اور ڈیوائسزکا استعمال آپ کو توجہ کی کمی‘ جینیاتی عارضے اور مسلسل ذہنی خلفشار ..
سول ہسپتال میں جدید طبی سہولیات کی فراہمی کا عزم، ڈی سی جہلم نے جدید ترین آپریشن تھیٹر کا افتتاح کر دیا
پنجاب میں 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا سے مزید 5 بچے دم توڑ گئے
پاکستان میں ایک کروڑستر لاکھ سے زائد لوگ گردوں کے امراض میں مبتلا ہیں
سرکاری ہسپتالوں میں سی ٹی سکین سروسزکی آؤٹ سورسنگ کے معاہدے پردستخط
2050 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد ایک ارب 30 کروڑتک پہنچ سکتی ہے
پاکستان بھر میں آج کل لوگوں کے بیمار ہونے کا سبب بننے والے مرض کی نشاندہی کر دی گئی
وزن کو کنٹرول کرنے کیلئے زیتون کا تیل انتہائی موثر ہے،ڈاکٹر محمد احمد سندھو
برطانیہ ،چھینک روکنے کی کوشش پرنوجوان کی سانس کی نالی پھٹ گئی
30 سال میں امراض قلب سے اموات 60 فیصد بڑھ گئیں
شادی کے بعد ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، تحقیق
24 گھنٹے کے دوران صوبے بھر میں 64نئے مریضوں میں ڈینگی کی تصدیق
کراچی ٹائون پلاننگ سے محروم ملک کا سب سے بڑا شہر