اقتصادی سفارتکاری ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، روس کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھل رہی ہیں، ہم نے ایف اے ٹی ایف میں گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے سے متعلق بھارت کی سازش کو ناکام بنا دیا، چین ہمارا مضبوط اور قابل بھروسہ دوست ہے،

سی پیک ٹو، چین اور پاکستان کے درمیان ایک نئے باب کا اضافہ ہے، خطے کا امن افغانستان میں امن سے وابستہ ہے ْوزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقتصادی سفارتکاری کے حوالے سے منعقدہ ’’بزنس کنیکٹ‘‘ اجلاس سے خطاب

جمعرات 5 دسمبر 2019 19:04

اقتصادی سفارتکاری ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، روس کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھل رہی ہیں، ہم نے ایف اے ٹی ایف میں گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے سے متعلق بھارت کی سازش کو ناکام بنا دیا، چین ہمارا مضبوط اور قابل بھروسہ دوست ہے،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2019ء) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ اقتصادی سفارتکاری ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے، روس کے ساتھ تعاون کی نئی راہیں کھل رہی ہیں، ہم نے ایف اے ٹی ایف میں گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیلنے سے متعلق بھارت کی سازش کو ناکام بنا دیا، چین ہمارا مضبوط اور قابل بھروسہ دوست ہے، سی پیک ٹو، چین اور پاکستان کے درمیان ایک نئے باب کا اضافہ ہے، خطے کا امن افغانستان میں امن سے وابستہ ہے۔

وہ جمعرات کو وزارت خارجہ میں اقتصادی سفارتکاری کے حوالے سے منعقدہ ’’بزنس کنیکٹ‘‘ اجلاس کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے۔ اجلاس میں کراچی، لاہور سیالکوٹ سمیت ملک کے طول و ارض سے موثر کاروباری شخصیات نے شرکت کی۔ وزیر خارجہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے وزارت خارجہ میں روائتی سوچ کی تبدیلی پر کام کیا ہے۔

(جاری ہے)

جب ہماری حکومت برسراقتدار آئی تو ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ انتہائی نچلے درجے پر تھے ہم نے ان دو طرفہ تعلقات کو ازسرنو استوار کیا۔

اب امریکہ نے خود اعلان کیا ہے کہ وہ دوحہ میں افغانستان امن مذاکرات کو بحال کرنا چاہتے ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر افغانستان میں امن بحال ہوتا ہے تو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے استحکام کیلئے ثمرات پیدا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان نے بھرپور کوشش کی کہ ایف اے ٹی ایف میں ہمیں گرے سے بلیک لسٹ میں دھکیل دیا جائے مگر ہم نے ہندوستان کی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

سرمایہ کاری کا فروغ بنیادی طور پر وزارت تجارت سے متعلقہ معاملہ ہے مگر ہم اس میں ان کے امدادی ہیں۔انہوں نے کہا کہ 2020 میں 15 پاکستانی بزنس مینوں کے وفود امریکہ جائیں گے۔ہم نے یورپی یونین کے ساتھ نیو سٹرٹیجک پارٹنرشپ معاہدے پر دستخط کیے جبکہ برطانیہ کے ساتھ روابط کے حوالے سے میری سیکرٹری خارجہ کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی اور ہم نے اگلے سال کے انگیجمنٹ پلان پر تبادلہ خیال کیا۔

چین ہمارا مضبوط اور قابل بھروسہ دوست جبکہ سی پیک ٹو، چین اور پاکستان کے درمیان ایک نئے باب کا اضافہ ہے۔ہمارے پاس 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ان کو روزگار کی فراہمی کے لئے اپنی معاشی گروتھ کو بڑھانا ہو گا اور گروتھ میں اضافے کیلئے پرائیویٹ سیکٹر کا کردار انتہائی اہم ہے صنعت سازی، کو ہمیں توجہ کا مرکز بنانا ہو گا ہمیں اپنی زرعی پیداوار کو بڑھانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ میں نے وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے کابل کا دورہ کیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ خطے کا امن افغانستان میں امن سے وابستہ ہے۔ہمارا مشرقی ہمسایہ ہندوستان جس کے ساتھ ہماری تجارت مختلف شعبوں میں چل رہی تھی جو دونوں کے لئے فائدہ کا باعث تھی لیکن ہمیں صورت حال کے پیش نظر منقطع کرنا پڑی۔وزیر اعظم عمران خان نے حکومت سنبھالنے کے بعد ہندوستان کو واضح پیغام دیا کہ اگر آپ ایک قدم آگے بڑھائیں گے تو ہم دو بڑھائیں گے۔

مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہندوستان 5 اگست سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بدترین کرفیو جاری رکھے ہوئے ہے۔انہوں نے کہا کہ روس کے ساتھ بھی تعاون کی نئی راہیں کھل رہی ہیں، ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت مستحکم ہوئے ہیں ایران کے ساتھ تعاون کی نہیں راہیں کھل رہی ہیں۔ ہماری حکومت کی کاوشوں سے 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری صرف سعودی عرب کی طرف سے کی جا رہی ہے۔

قطر کے ساتھ ہمارا ایل این جی معاہدہ نئی شرائط پر طے ہو رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ 19 تاریخ کو وزیر اعظم عمران خان اور باقی پانچ ممالک کوالالمپور میں اکٹھے ہونگے اور کثیر الجہتی شعبوں پر، مشترکہ لائحہ عمل کے حوالے سے بات چیت ہو گی۔ہندوستان کی مخالفت کے باوجود ہم نے کرتارپور راہداری کو کھولا لیکن اس خیر سگالی کے اقدام سے دنیا بھر میں 14 لاکھ سکھ کمیونٹی نے پاکستان کو سراہا۔

ہم سیاحت کے فروغ کیلئے ای ویزہ کا آغاز کر چکے ہیں بدھ مذہب کو ماننے والے ممالک کیلئے پاکستان آمد کے مواقع پیدا کر رہے ہیں تاکہ وہ پاکستان میں موجود اپنے مذہبی ورثے کو دیکھ سکیں۔ہم افریقہ کو اپنی توجہ کا مرکز بنا رہے ہیں ، 54 ممالک پر مشتمل دنیا کا دوسرا بڑا براعظم افریقہ ہے جس کی مارکیٹ پر ہم نے توجہ مرکوز کرنی ہے۔کے ایل سمٹ کے اختتام پر ہم ’’ویژن ایسٹ ایشیا‘‘ پر لائحہ عمل مرتب کریں گے۔ہم نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں سٹرٹیجک پالیسی پلاننگ سیل تشکیل دیا ہے جو پیش آمدہ خارجہ چیلنجز پر وزارت خارجہ کی عاونت کرتا رہے۔لیکن ان ساری کاوشوں کے بہترین نتائج ہماری معاشی بہتری سے مشروط ہیں اور اسی لئے اقتصادی سفارتکاری ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں