پی ٹی آئی مارچ سے قبل اسلام آباد کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع کیے جانے کا امکان

دارالحکومت پولیس نے دیگر صوبوں سے درجنوں قیدی وین اور واٹر کینن گاڑیاں بھی منگوالیں

منگل 24 مئی 2022 16:12

پی ٹی آئی مارچ سے قبل اسلام آباد کا ملک کے دیگر حصوں سے رابطہ منقطع کیے جانے کا امکان
اسلام آبا د (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مئی2022ء) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے 25 مئی کو حکومت یا پاکستان تحریک انصاف کے کنٹرول میں ہونے سے قطع نظر وفاقی دارالحکومت کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ منقطع کیے جانے کا امکان ہے۔میڈیا رپورٹ کے مطابق کیپیٹل پولیس کے افسران نے بتایا کہ حکومت کی ہدایت پر دو منصوبے بنائے گئے ہیں، پی ٹی آئی کے مارچ کے شرکا کو دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت دے دی جائے گی یا پھر داخلی مقامات پر انہیں روک دیا جائے گا تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے لیکن دونوں صورتوں میں مارگلہ روڈ پر واحد داخلی/ایگزٹ پوائنٹ کے سوا ریڈ زون کو سیل کر دیا جائے گا۔

افسران نے کہا کہ اگر حکومت پی ٹی آئی کو دارالحکومت میں داخل ہونے کی اجازت دیتی ہے تو پلان اے نافذ کیا جائے گا تاہم اس صورت میں مارچ کرنے والوں کو زیرو پوائنٹ عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، فیض آباد، بہارہ کہو، روات اور گولڑہ کو کنٹینرز لگا کر سیل کیا جائے گا اور پولیس تعینات ہوگی۔

(جاری ہے)

حکومت نے پی ٹی آئی کو دارالحکومت میں داخلے کی اجازت نہ دی تو پلان بی پر عملدرآمد کیا جائے گا، اس پلان کے تحت تمام داخلی راستوں کو سیل کر دیا جائے گا اور مارچ کرنے والوں کو اٹک اور جہلم پل پر روک دیا جائے گا،اس کے علاوہ موٹرویز اور جی ٹی روڈ بلاک کر کے پی ٹی آئی کے مقامی رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کیا جائے گا، افسران نے بتایا کہ اس سلسلے میں 400 سے زائد مقامی رہنماؤں اور کارکنوں پر مشتمل ایک فہرست تیار کی گئی ہے، جیسے ہی حکومت کی جانب سے ہدایت جاری کی جائے گی ان کی گرفتاری شروع ہو جائے گی۔

مزید یہ کہ ایسے مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں پی ٹی آئی اور اس کے طلبہ ونگ کے کارکنان ملک کے دیگر حصوں سے دارالحکومت پہنچنے کے بعد چھپے ہوئے ہیں۔بنی گالہ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائش گاہ کے قریب قصوری روڈ پر 300 سے زائد کارکنان ٹھہرے ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق انصاف اسٹوڈنٹ فیڈریشن (آئی ایس ایف) سے ہے۔افسران نے بتایا کہ عمران خان کو گزشتہ جمعہ کی رات گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا تاہم یہ منصوبہ ناکام رہا، پی ٹی آئی کے چیئرمین اس روز ایک عوامی اجتماع کے سلسلے میں ملتان میں تھے، ان کا کہنا تھا کہ دارالحکومت پولیس کا ایک بھرپور دستہ انہیں گرفتار کرنے کے لیے بنی گالا پہنچا تھا تاہم پولیس کا منصوبہ لیک ہوکر پی ٹی آئی قیادت کے علم میں آگیا جس کے بعد عمران خان دارالحکومت واپس نہیں آئے، بعدازاں کیپٹل پولیس چیف اور ایس ایس پی آپریشنز کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔

افسران نے بتایا کہ اس دوران ریڈ زون اور شہر کے داخلی راستوں کو سیل کرنے کے لیے کنٹینرز کو دارالحکومت واپس لایا گیا،اب تک پولیس کو 500 کنٹینرز دیے جا چکے ہیں اور ریڈ زون کو سیل کرنے کے لیے 300 کنٹینرز درکار تھے جو پہلے ہی لگانے شروع کیے جاچکے ہیں ،مارگلہ روڈ پر ریڈ زون میں داخل ہونے کا واحد راستہ کھلا رہے گا تاہم وہاں پولیس اور نیم فوجی دستوں کی نفری تعینات رہے گی۔

افسران نے بتایا کہ دارالحکومت پولیس کے لیے ہنگامی حالات کے علاوہ تمام قسم کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی ہیں۔دریں اثنا دارالحکومت پولیس نے پنجاب کانسٹیبلری کے 8 ہزار اہلکاروں کے ساتھ پنجاب سے 2 ہزار اینٹی رائٹ یونٹ کے اہلکاروں، سندھ کے 2 ہزار اہلکاروں اور 4 ہزار رینجرز اہلکاروں کے دستے کی درخواست کی ہے، اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے بھی پولیس کی نفری طلب کر لی گئی ہے۔

مزید برآں دارالحکومت پولیس نے دیگر صوبوں میں اپنے ہم منصبوں سے درجنوں قیدی وین اور واٹر کینن گاڑیاں بھی منگوالیں۔دارالحکومت پولیس کے پاس 20 ہزار لمبی اور مختصر رینج کے آنسو گیس کے شیل ہیں جبکہ ربڑ کی ہزاروں گولیاں منگوا لی گئی ہیں۔دارالحکومت انتظامیہ نے بھی گزشتہ روز پولیس سے دارالحکومت میں پی ٹی آئی کے دھرنے کے شیڈول کے بارے میں رائے طلب کی۔ضلعی مجسٹریٹ کے دفتر کی جانب سے بھیجے گئے خط میں سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل آف پولیس اسپیشل برانچ اور اسسٹنٹ کمشنر انڈسٹریل ایریا سے رائے مانگی گئی ہے، مزید ضروری کارروائی کے لیے تینوں افسران سے فوری جواب طلب کر لیے گئے۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں