چیئرمین نیب جاوید چودھری کے کالموں کی تصدیق کردی

چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس خالص سیاسی تھی، ثابت ہوا نیب اورمعیشت ہی نہیں بلکہ احتساب اور جسٹس(ر) جاوید اقبال بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ سینئر تجزیہ کارسلیم صافی کا تبصرہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ اتوار 19 مئی 2019 20:44

چیئرمین نیب جاوید چودھری کے کالموں کی تصدیق کردی
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔19 مئی 2019ء) سینئر تجزیہ کار اور صحافی سلیم صافی نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب جاوید چودھری کے کالموں کی تصدیق کردی، چیئرمین نیب کی پریس کانفرنس خالص سیاسی تھی، ثابت ہوا نیب اورمعیشت ہی نہیں بلکہ احتساب اور جسٹس(ر) جاوید اقبال بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ انہوں نے ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کے خالص سیاسی پریس کانفرنس سے ثابت ہوا کہ نیب اورمعیشت ہی نہیں بلکہ احتساب اور جسٹس(ر) جاوید اقبال بھی ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

سلیم صافی نے کہا کہ چیئرمین نیب نے تردید کی بجائے
جاوید چودھری کے کالموں کی تصدیق بھی کردی ہے اور پریس کانفرنس میں اپنے ہی ترجمان کو جھوٹا ثابت کیا۔

(جاری ہے)

نیوز ایجنسی کے مطابق قومی احتساب بیورو نیب کے چیئرمین جسٹس ر جاوید اقبال نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نہ ماہر معاشیات ہوں اور نہ ہی سیاستدان ہوں ، ہمیشہ عدلیہ سے تعلق رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ کاروباری برادری کو تنگ کررہا ہے اور ملک کی موجودہ معاشی زبوں حالی میں نیب کا ہاتھ ہے، نیب اور معیشت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے ، میں انہیں کہتا ہوں کہ نیب اور کرپشن ساتھ نہیں چل سکتے، نیب اور معیشت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، آئی ایم ایف سے حکومتی معاہدے اور ڈالر کی قیمتوں میں اضافے سے نیب کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کاروباری سرگرمیوں کے نہ ہونے کی بنیادی وجہ نیب نہیں ہے۔اگر جہاں پانچ ہزار کی ضرورت ہے وہاں پانچ لاکھ خرچ ہوں گے تو نیب ضرور پوچھے گا ۔ اگر ہم یہ پوچھتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ نیب ان کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے ، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ملک کا قرضہ 90 ارب ڈالر سے بڑھ کر 100 ارب ڈالر سے بھی زائد ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نیب نے ٹیلی گراف ٹرانزیکشن میں کبھی مداخلت نہیں کی یہ کاروباری اداروں کا قانونی حق ہے لیکن کاروباری اداروں اور منتخب نمائندوں کی جانب سے ٹیلی گراف ٹرانزیکشن کے درمیان فرق رکھنا ہو گا۔ اگر نیب اس حوالے سے پبلک ہولڈر سے سوال کرتا ہے تو یہ نیب کا قانونی حق ہے ۔ ایم پی اے، ایم این ایز اور سینیٹرز سے کروڑوں روپے کے لین دین سے متعلق پوچھنا قانونی ہے ، فالودے والے اور چھابڑی والے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے اس بارے میں پوچھنا قانونی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق 9 5صد لوگ نیب پر اعتماد کرتے ہیں ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ منتخب نمائندوں سے کروڑوں روپے کی ٹرانزیکشن کے بارے میں پوچھنا ملک کے مفاد میں ہے، ملکی مفاد مقدم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال رکھا ہے اور منی لانڈرنگ سے متعلق متنبع کیا ہے، جب بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ دائو پر لگ جائے تو ملک کے مفاد میں اور ملک کے تشخص کو بچانے کیلئے اقدامات کرنا ہمارا فرض ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان قائم ودائم رہے گا، نیب کا تعلق صرف پاکستان سے ہے، ہماری وابستگی کسی اور سے نہیں ہے، کوئی حکومت یا ادارہ نیب کو ڈکٹیشن نہیں دے سکتا ہے، نیب قانون کے مطابق کارروائی کرے گا ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے نظام میں بھی خامیاں ہو سکتی ہیں۔ ہم ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے اقدامات کررہے ہیں، پراسیکیوشن کو مضبوط کرنے کیلئے میرٹ پر بھرتیاں کی گئی ہیں۔

اگر حکومت سے تعلق اچھا ہوتا تو ہمارے بجٹ میں رکاوٹیں نہ ڈالی جاتیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ نیب میں مقدمات کی ذاتی طور پر بھی نگرانی کرتا ہوں تاکہ عدالت میں بہترین مقدمہ پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے الزامات کے تناظر میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کرنا نیب کی ذمہ داری ہے۔ ایسے منتخب نمائندے جو بظاہر منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں ان کے خلاف شواہد موجود ہیں پاکستان کا ہر قیمت پر مفاد مقدم رکھیں گے ، ملک کا تشخص بحال کریں گے، اگر یہ گناہ ہے تو کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور پھر یہ مقدمہ نیب کو بھیجا ۔ نیب اس تناظر میں متعلقہ احتساب عدالتوں میں بدعنوانی کے مقدمات دائر کررہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب کا کام شکایت کی جانچ پڑتال، انکوائری، انوسٹی گیشن ، متعلقہ احتساب عدالتوں میں مقدمات دائر کرنا اور ان کی پراسیکیوشن ہے تاہم مقدمات کے فیصلے کرنا عدالتوں کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانا نیب کی اولین ترجیح ہے ، جب لوگوں کو عارضی طور پر ریلیف ملتا ہے تو ان پر گل پاشی کی جاتی ہے، سونے کے تاج پہنائے جاتے ہیں، وہ کہتے پہلے انکوائری کریں پھر گرفتار کریں ، نیب ثبوت کے بغیر کسی کو گرفتار نہیں کرتا ، گرفتار ملزموں کو 24 گھنٹوں بعد متعلقہ احتساب عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اگر نیب کے پاس ثبوت نہ ہوتا تو کچھ ملزم ملک سے فرار نہ ہوتے ، انہیں ملک میں ہر جگہ نیب نظر آئی جس سے ڈر کر وہ باہر چلے گئے۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ ہمیں منتخب پارلیمنٹ اور عوامی نمائندوں کا احترام ہے، انہوں نے کہا کہ نیب نے کبھی کسی کو بلا وجہ ، کسی ڈکٹیشن ، انتقامی کارروائی یا پولیٹیکل انجیئرنگ کے باعث پانچ منٹ بھی حراست میں نہیں رکھا۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ تاجروں کی شکایات میں خود اور تمام علاقائی بیوروز کے ڈائریکٹر جنرلز سنتے ہیں، کاروباری برادری پر کوئی خوف اور دبائو نہیں ہے، نیب آئندہ کسی بزنس مین کو نہیں بلائے گا، سوال نامہ بھیجیں گے جب بادی النظر میں کیس بنتا ہے تو پھر آنا پڑے گا، تاجر برادری اطمینان سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے تاہم یہ آئین اور قانون کے مطابق ہونی چاہئیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب نے گزشتہ 14 ماہ کے دوران بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے اڑھائی ارب روپے وصول کرکے متاثرین میں تقسیم کئے ہیں، یہ نیب کی شاندار کارکردگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری کا ملکی ترقی میں اہم کردار ہے، نیب ان کو تحفظ فراہم کرے گا اور کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے یہ تاثر پیدا ہو کہ معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، نیب انسان دوست ادارہ ہے اور وہ سب کی عزت نفس کا خیال رکھے گا، قرآن پاک میں بھی رزق حلال کمانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر شخص کو اپنے اختیار کے بارے میں جوابدہی کرنی ہے کہ اس نے اپنے اختیار کو اپنے لئے استعمال کیا یا ملکی مفاد میں استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام لگایا ہے کہ بیورو کریسی نیب کی وجہ سے خوفزدہ ہے، میں وفاقی بیورو کریسی کے پاس خود گیا اور اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کیا انہیں یقین دلایا کہ گریڈ 17 سے 21 تک جتنے کیسز درج ہوں گے ان کی ذاتی طور پر نگرانی کروں گا، بیورو کریسی ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔

انہوں نے حکومت سے گزارش کی کہ جن افسران کے مقدمات نیب میں چل رہے ہیں یا ان کے خلاف انوسٹی گیشن مکمل ہوگئی ہے ان کو اہم عہدوں پر تعینات نہ کیا جائے ان کے خلاف مقدمات کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پنجاب کی بیورو کریسی سے بھی خطاب کیا اور ان کی شکایات پوچھیں، پنجاب کی بیورو کریسی سے مشاورت کے بعد ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا ہے۔

چیف سیکرٹری پنجاب سے کہا کہ وہ اپنے اداروں میں ادارہ جاتی احتساب کے نظام کو فعال بنائیں۔انہوں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہتھکڑی لگنے سے ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے تو انہیں ایسے کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہئے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران نیب ملزمان کو ہتھکڑی نہیں لگا رہا۔ انہوں نے کہا کہ منی لانڈرنگ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے خاندان کی کسی خاتون کو اس میں شامل کریںگے تو اس سے سوالات ہوں گے تاہم نیب کسی خاتون کو اپنے دفتر نہیں بلائے گا اور ان کو سوال نامہ بھیجا جائے گا اور اگر ضروری ہوا تو خاتون انوسٹی گیشن آفیسر ان کے گھر جائے گی، کوشش ہے کہ کسی خاتون کے خلاف نیب ریفرنس دائر نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جن بیورو کریٹس کے گھروں سے لاکھوں ڈالر ملے تو ان کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو، میگا مقدمات کو نمٹانا اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب آزاد ادارے کے طور پرکام کر رہا ہے اس پر کوئی حکومتی اثر و رسوخ، ڈکٹیشن اور سیاست نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ علیم خان کا فیصلہ ابھی آیا ہے اس کے خلاف اپیل دائر کرنے پر غور کر رہے ہیں جبکہ مشتاق لانگو کے مقدمہ میں اپیل دائر کردی ہے۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں