رانا ثنا اللہ کووزیراعظم کا مشیر بنائے جانے کے بعدپارٹی کے ناراض راہنماﺅں کو سرکاری عہدے دینے کے لیے فہرستوں کی تیاری

مسلم لیگ نون کے قائدمیاں نوازشریف کی ہدایت پر ناراض اور انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکنے والے پارٹی راہنماﺅں کو مرکزی اور پنجاب حکومت میں عہدے دینے کا فیصلہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 2 مئی 2024 17:01

رانا ثنا اللہ کووزیراعظم کا مشیر بنائے جانے کے بعدپارٹی کے ناراض راہنماﺅں کو سرکاری عہدے دینے کے لیے فہرستوں کی تیاری
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔02 مئی۔2024 ) مسلم لیگ نون کے ناراض راہنما رانا ثنا اللہ کی وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعیناتی کے بعدپارٹی کے مزید راہنماﺅں کو وفاق اور پنجاب میں عہدے دینے کے لیے فہرستیں مرتب کی جارہی ہیں.

(جاری ہے)

رانا ثناءاللہ کو وزیر اعظم شہبازشریف کی سفارش پر صدر آصف علی زرداری نے کے مشیر مقررکرنے کی منظوری دی تھی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ رانا ثناءاللہ کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر ہوگا ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے مسلم لیگ نون کے قائداور سابق وزیراعظم نوازشریف کی ہدایت پر جماعت کے ناراض راہنماءعام انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے انہیں مرکزی اور پنجاب حکومت میں عہدے دیئے جائیں گے نوازشریف کے ایک سابق قریبی ساتھی کا کہنا ہے جن راہنماﺅں کے نام مشیروں یا دیگر سرکاری عہدوں کے لیے آرہے ہیں انہیں پارٹی کا ایک گروہ ”ٹیم نوازشریف“کے نام سے پکارتا ہے.

مسلم لیگ نون پنجاب کے صدر رانا ثناءاللہ بھی فیصل آباد سے ابھی نشست پر ہار گئے تھے اسی طرح میاں جاوید لطیف کے بارے میں بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں مرکزی حکومت میں مشیر بنانے پر غور ہورہا ہے ان کا عہدہ بھی وفاقی وزیرکے برابرہوگا. پنجاب میں بھی ناراض راہنماﺅں کا مختلف عہدوں پر تقررکیا جائے گا پنجاب اور لاہور ڈویژن کے مختلف اداروں کی سربراہی مسلم لیگ نون کے ناراض راہنماﺅں کو دی جارہی ہے یہاں تک کہ پنجاب حکومت کی کئی غیرفعال کمپنیوں کی سربراہی کے لیے بھی نون لیگی راہنماﺅں کے ناموں کی منظوری میاں نوازشریف نے دی ہے لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی(لیسکو )کی چیئرمین شپ انتخابات میں شکست کھانے والے مسلم لیگ نون کے حافظ نعمان کے پاس ہے .

سیاسی مبصرین کے نزدیک بدقسمتی سے پاکستان میں یہ بدترین روایت ہے کہ وہ سیاسی راہنماءجنہیں عوام مسترد کردیتے ہیں سیاسی جماعتیں انہیں چور دروازوں سے اقتدار کے ایوانوں میں لے آتی ہیں ایک طرف سیاسی جماعتیں عوامی مینڈیٹ کے احترام کی بات کرتی ہیں تو دوسری جانب اسی عوام کی جانب سے مستردکردہ لوگوں کو وزیروں کے عہدوں کے برابرعہدوں سے نوازا جاتا ہے عوام کی جانب سے مستردشدہ سیاسی لوگوں کو تو اخلاقی طور پر خود ہی کوئی عہدہ لینے سے معذرت کرلینی چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیے کہ وہ انتخابات میں ہار جانے والوں کو نوازنے کی بجائے انہیں آئندہ انتخابات پر پارٹیوں میں ذمہ داریاں دیں ناں کہ انہیں اسی عوام کی گردنوں پر مسلط کردیں جنہوں نے انہیں مسترد کیا ہے.

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اخلاقی روایات قائم کرنا بہت ضروری ہیں اگر 75سالوں میں ہم ایسی اخلاقی روایات بھی قائم نہیں کرسکے تو یہ بہت بڑی ناکامی ہے اور اگر سیاسی جماعتوں نے خود ہی سب کچھ طے کرنا ہے تو پھر آئین میں ترمیم کرکے الیکشن کا عمل ختم کردیا جائے اور مقتدرقوتوں اور سیاسی جماعتوں کو اختیار دے دیا جائے کہ وہ جس کو جس عہدے کے لیے چاہیں نامزد کردیں تاکہ اربوں روپے کے انتخابی اخراجات اور الیکشن کمیشن پر سالانہ اربوں روپے کا خرچ بچ جائیں انہوں نے کہا کہ اعلی عدالتوں کو نظرنہیں آتا یہ سب وہ اس پر ازخود نوٹس کیوں نہیں لیتیں؟.

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں