کرپشن کی دولت لاہور سے چل کر خلیجی ریاستوں سے ہوتی ہوئی امریکہ یا کوئی او رپہنچ جاتی ہے چیئرمین نیب

نوے روز کا ریمانڈ یکمشت نہیں ملتا،وائٹ کالر کرائم کو ڈھونڈنے کیلئے 14روز لگا تار فضائی سفر بھی کریں تو اس کی ساری تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی ماضی میں جن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا نیب نے ان سے باقاعدہ ریکوریاں بھی کی ہیں جسٹس (ر) جاوید اقبال

بدھ 20 جنوری 2021 23:39

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 جنوری2021ء) چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ ماضی میں جن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا نیب نے ان سے ریکوریاں کی ہیں، نیب کے خلاف دشنام طرازی کی گئی، نیب کیخلاف مضموم پراپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن نیب کسی بھی دھونس و دہاندلی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر کام جاری رکھے گا،تنقید ضرور کریں مگر تنقید تعمیری ہونی چاہیے نہ کہ محض الزام تراشیوں پر مبنی ہو،وائٹ کالر کرائم کے مقدمات میں ملزمان کا 90 روزہ ریمانڈ اکٹھا نہیں دے دیا جاتا بلکہ شواہد کی فراہمی پر ہی ریمانڈ فراہم کیا جاتا ہے جہاں عدالت کو مطمئن کرنا پڑتا ہے اور بادی النظر میں کیس ثابت بھی کرنا پڑتا ہے،اگر بزنس کمیونٹی کو نیب سے کوئی مشکلات کا سامنا ہوتا تو کیا سٹاک ایکسچینج ترقی کر رہا ہوتا ،نیب کی حراست اور جوڈیشل حراست کے فرق کو سمجھا جائے ،اگرچہ وت کا وقت متعین ہے اور طبعی موت کہیں بھی آ سکتی ہے لیکن نیب کی حراست میں مبینہ اموات کا پراپیگنڈا بھی کیا جاتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوںنے نیب لاہور بیورو میں منعقدہ اجلاس اور تین ہائوسنگ سوسائٹیوں کے متاثرین میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔نیب لاہور میں ڈائریکٹر جنرل کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں نے میگا کرپشن کے مقدمات میں ہونے والی پیشرفت پر جامع بریفنگ دی۔ بریفنگ کے اختتام پر جسٹس (ر)جاوید اقبال نے ماڈل ہائوسنگ انکلیو اور فیروزپور ہائوسنگ سوسائٹی کے 3000 سے زائد متاثرین میں 76 کروڑ مالیت کے چیک تقسیم کئے۔

اس موقع پر جسٹس (ر)جاوید اقبال نے کہا کہ نیب کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ قانون کی حکمرانی پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنایا،نیب کا مقصود کسی عمل کی تشہیر کرنا نہیں بلکہ متاثرین کے نقصان کا فوری ازالہ ہی پہلی فوقیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ پلی بارگین قانون کے تحت 2 سال کے کم ترین عرصہ میں ڈھائی ارب کی خطیر رقم ملزمان سے برآمد کروا کر ہزاروں متاثرین میں تقسیم کی گئی ہے۔

نیب میں ہر کسی کے عزتِ نفس کا مکمل طور پر خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ خدمتِ خلق نیب کا نصب العین ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب کے خلاف دشنام طرازی کی گئی، نیب کیخلاف مضموم پراپیگنڈا بھی کیا گیا لیکن نیب کسی بھی دھونس و دہاندلی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف اور صرف میرٹ پر کام جاری رکھے گا۔تنقید ضرور کریں مگر تنقید تعمیری ہونی چاہیے نہ کہ محض الزام تراشیوں پر مبنی ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے اندر اپنا احتساب سب سے زیادہ ہے،کسی ملزم کو گرفتاری کے بعد فوری طور پر معزز عدالتوں کے روبرو پیش کیا جاتا ہے جہاں شواہد کو مدِ نظر رکھ کر ہی ملزمان کا ریمانڈ فراہم کیا جاتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم کے مقدمات میں ملزمان کا 90 روزہ ریمانڈ اکٹھا نہیں دے دیا جاتا بلکہ شواہد کی فراہمی پر ہی ریمانڈ فراہم کیا جاتا ہے جہاں عدالت کو مطمئن کرنا پڑتا ہے اور بادی النظر میں کیس ثابت بھی کرنا پڑتا ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ نیب کے معاملات میں حقائق سے مکمل آگاہی اور قانون کا علم ہونا ضروری ہے صرف تنقید کرنا مناسب نہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈکیتی یا قتل کے مقدمہ میں چودہ رو ز بہت ہیں،لیکن وائٹ کالر کرائم جس کی ابتدا لاہور سے ہوتی ہے جس کے بعد یہ اسلام آباد شفٹ ہو جاتا ہے ،وہاں سے یہ خلیجی ریاستوں میں چلا جاتا ہے ، وہاں سے پتہ چلتا ہے کہ کرپشن کی دولت تھی اس سے یا تو امریکہ میں فارم خرید لئے گئے ہیں یا کسی دوچار اور ممالک میں خریدلئے گئے ہیں ، اگر چودہ روز میں لگا تارفضائی سفر بھی کیا جائے تو یہ ساری تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جن کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا نیب نے ان سے باقاعدہ ریکوریاں بھی کی ہیں۔نیب لاہور کے اقدامات کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صرف 2 سال میں اربوں روپے متاثرین کو واپس لوٹائے گئے جو کہ نیب لاہور کے آفیسران و سٹاف کا اعزاز ہے۔چیئر مین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ سفارش اور دھمکی نیب کے دروازے کے باہر ہی ختم ہو جاتی ہے اگر چہ ہم جس راستہ پر چل رہے ہیں وہ ملک و قوم کی بے لوث خدمت کا راستہ ہے اور اسکی واضح مثال آپ متاثرین کے چہروں پر خوشی کے آثار ہیں جنہیں 2 سال کے قلیل ترین عرصہ میں ڈھائی ارب روپے واپس لوٹائے گئے ہیں اگرچہ دوسری ہائوسنگ سوسائٹی میں انہی دو سالوں کے کم عرصہ میں 1 ارب 32کروڑ روپے متاثرین کو واپس لوٹائے۔

بزنس کمیونٹی کی مبینہ شکایات کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے چیئر مین نیب جسٹس جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ آج تک پاکستان کے کسی بزنس مین کو نیب کیوجہ سے کوئی مشکل درپیش نہیں رہی۔ اگر بزنس کمیونٹی کو نیب سے کوئی مشکلات کا سامنا ہوتا تو کیا سٹاک ایکسچینج ترقی کر رہا ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ نیب کی حراست میں اور جوڈیشل حراست کے فرق کو سمجھا جائے اگرچہ موت کا وقت متعین ہے اور طبعی موت کہیں بھی آ سکتی ہے لیکن نیب کی حراست میں مبینہ اموات کا پراپیگنڈا بھی کیا جاتا رہا ہے۔ چیئر مین نیب نے کہا کہ کرپشن کے خلاف بلا امتیاز اقدامات کئے ہیں اور یہ اقدامات جاری رہیں گی

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں