شادی سے پہلے بچیوں کو خاندانی ،معاشرتی معاملات سے آگاہی ہونابے حد ضروری ہے ‘ ثمن رائے

چائلڈ میرج ایکٹ میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ، عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں ‘ ڈی جی پاپولیشن ویلفیئر

بدھ 17 اپریل 2024 17:20

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 اپریل2024ء) چیف ایگزیکٹیو آفیسر پی پی آئی ایف وڈائریکٹر جنرل پاپولیشن ویلفیئر ثمن رائے نے کہا ہے کہ پنجاب میں باہمی مشاورت سے کم عمری کی شادی کے خاتمے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل بھی ترتیب دیا گیاہے، کم عمری کی شادی بچوں کو بنیادی انسانی حقوق جن میں تعلیم اور صحت کے حق سر فہرست ہے سے محرم کر دیتی ہے،کم عمری کی شادی ہماری معاشی اور سماجی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے، عدالت عالیہ نے چائلڈ میرج ایکٹ 1929 ء میں لڑکے اور لڑکی کی عمر میں فرق کو کالعدم قرار دے دیا ہے، اس حوالہ سے عدالتی حکم کے مطابق لڑکے اور لڑکی کی کم از کم شادی کی عمر 18سال قرار دی گئی ہے جبکہ عدالت نے حکومت کو چائلڈ میرج ا یکٹ میں ترمیم کرنے کا حکم بھی دیا ہے، چائلڈ میرج ایکٹ میں شادی کی کم از کم عمر 18 سال مقرر ہونا بہت ہی خوش آئند بات ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم سب کو باہمی مشاورت اور تعاون سے اس رواج کا خاتمہ کرنا یوگا۔متعلقہ ادارے کم عمری کی شادی پر قوانین میں تبدیلی کے لیے ہر دم کوشاں ر ہے ہیں تاکہ مثبت معاشرتی تبدیلی لائی جا سکے۔ پاکستان کے بہت سے حصوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی شادی کم ترین عمر میں کر دی جاتی ہے جس سے معصوم بچیوں کی ایک بڑی تعداد اس قدیم رسم کا شکار ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عمل زیادہ تر معاشرے میں صنفی عدم مساوات کے پھیلاؤ اور پدرانہ ثقافتی اصولوں سے پیدا ہوتا ہے۔پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق، 15 سال سے کم عمر کی 3.6 فیصداور18.3 فیصد لڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم میں کر دی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی ادارے کی ایک اور رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان دنیا میں کم عمری بچیوںکی شادی کروانے میں چھٹے نمبر پر ہے۔

پیدائش کے اندراج کا غیر موثر نظام بچوں کی شادیوں کے واقعات میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میںپیدائش کی رجسٹریشن میں لڑکیوں کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی۔ خاص طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ سماجی ڈھانچے، انتہائی غربت اور ناخواندگی کے علاوہ مذہبی عقائد بھی اس روایت کو فعال کرتے ہیں۔ چائلڈ میرج جنسی زیادتی کی ایک شکل ہے جس میں بچے کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اسے بچپن سے محروم کر دیا جاتا ہے جو بچے کی نفسیاتی بہبود اور فکری، ذاتی اور سماجی نشوونما کو متاثر کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دوسری لڑکیوں کے مقابلے شادی کرنے والی کم عمر لڑکیوں کے اسکول چھوڑنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ مضبوط نفاذ کے لیے شادیوں کی رجسٹریشن کے لیے CNIC کی فراہمی کو لازمی قرار دیا جائے۔ایک ملک گیر مہم بچوں کی شادی کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں بیداری بڑھانے میں بھی مدد کر سکتی ہے۔بچوں کی شادیوں سے نمٹنے کے لیے ہر بچے کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ اس سے ہماری نوجوان نسلوں کو زیادہ خوشحال ملک میں صحت مند، آزاد زندگی گزارنے میں مدد ملے گی۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں