اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں روک نہ سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے.جسٹس قاضی فیض عیسی‘سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن بولنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا.جسٹس اطہر من اللہ

بلوچستان ہائی کورٹ کے ججوں نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا یعنی عدالتی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس پر چیف جسٹس غصے میں آگئے سب کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں. چیف جسٹس قاضی فیض عیسی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 30 اپریل 2024 14:33

اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں روک نہ سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے.جسٹس قاضی فیض عیسی‘سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن بولنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا.جسٹس اطہر من اللہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30 اپریل۔2024 ) عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط اور ان پر دی جانے والی تجاویز پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فیض عیسی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں روک نہ سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط اور ان پر دی جانے والی تجاویز پر ازخود نوٹس پر سماعت جاری ہے.

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جب ہر چیز ہی میڈیا پر چل رہی ہے تو ہم بھی پبلک کر دیتے ہیں کیا جو نکات بتائے گئے ان پر آئین کے مطابق ہائیکورٹ خود اقدامات نہیں کر سکتی؟ عدالت کے اس سوال پر اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہائیکورٹ بالکل اس پر خود اقدامات کر سکتی ہے. بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس اعجاز اسحاق نے تجاویز کے ساتھ اضافی نوٹ بھی بھیجا ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا اضافی نوٹ بھی پڑھیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون سے نکات ہیں جن پر ہائیکورٹ خود کارروائی نہیں کر سکتی؟.

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کہ سب نکات پر خود ہائیکورٹ کارروائی کر سکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو پھر کیا سپریم کورٹ ہائیکورٹس کو ہدایات دے سکتی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ہائیکورٹ کی بھجوائی تجاویز کو سراہنا چاہیے کوئی رسپانس نہیں ہو گا تو ججز بے خوف نہیں ہوں گے ہمیں اس نکتے کو دیکھنا چاہئے جو ہائیکورٹ ججز اٹھا رہے ہیں.

انہوں نے کہا کہ آپ جسٹس اعجاز کا نوٹ پڑھیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں ہائیکورٹس کی تجاویز تک ہی محدود رہنا چاہیے ہر کسی کی بھیجی چیزوں پر نہیں جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل ججوں کو سراہنے کیلئے اسے آن ریکارڈ پڑھ دیں جج جو کہہ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ مداخلت ایک مسلسل جاری معاملہ ہے. اٹارنی جنرل نے پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے دی جانے والی تجاویز پڑھیںتجاویز میں کہا گیا ہے کہ اس میں کہا گیا کہ اگر فیض آباد دھرنے سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو جاتا تو عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت ختم ہو جاتی جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف جو نظر ثانی کی اپیلیں دائر کی گئیں وہ چار سال تک سماعت کے لیے مقرر ہی نہیں کی گئیں انہوں نے کہا کہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیلیں دائر کرنے والوں میں آئی ایس آئی کے علاوہ اس وقت کی حکومت اور سیاسی جماعتیں شامل ہیں.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے میں کہا تھا کہ جنرل فیض حمید اس کے ذمہ دار ہیں انہوں نے کہا کہ بعد میں تمام نے نظرثانی کی اپیلیں واپس لے لی گئیں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فیض آباد دھرنا سے متعلق ذمہ داروں کے تعین سے متعلق ایک کمیشن بنایا حالانکہ وہ خود بھی کرسکتے تھے انہوں نے کہا کہ جب یہ دھرنا ہوا تو اس وقت دنیا کو معلوم تھا کہ پاکستان کو کون چلا رہا تھا.

بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فیض آباد دھرنے سے متعلق جو تین رکنی کمیشن بنایا گیا تھا اس نے اپنی تجاویز سے اس عدالتی فیصلے کو ہی غیر موثر کردیا ہے انہوں نے کہا کہ اس کمیشن نے قانون سازی کرنے کے بارے میں بھی کہا تھا لیکن ابھی تک حکومت نے کوئی قانون سازی نہیں کی. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ پارلیمان کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر پارلیمان مضبوط نہیں ہوگی تو دوسری طاقتیں مضبوط ہو جائیں گی جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب کو معلوم ہے کہ سچ کیا ہے لیکن بولنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی جج دباﺅ کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہیں ہے تو اس کو جج رہنے کا کوئی حق نہیں ہے سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاکہ جو سچ بولتا ہے اس کے ساتھ وہی ہوتا ہے کہ جو آج ان چھ ججز کے ساتھ ہو رہا ہے جنہوں نے آواز بلند کی.

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا عدالت اس ضمن میں ہائی کورٹس کو کوئی اگر ہدایت دے تو کیا اس میں مداخلت ہوگی جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹس کے پاس خود توہین عدالت کا نوٹس لینے کا اختیار ہے بلوچستان ہائی کورٹ کے ججز کی طرف سے اس ضمن میں کوئی تجاویز نہ آنے پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کچھ نہ کہتے ہوئے سب کچھ کہہ دیا یعنی عدالتی معاملات میں مداخلت ہو رہی ہے اس پر چیف جسٹس نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام کو تنقید کا نشانہ بنانا مناسب نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وہ بھی چار سال تک بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں انہوں نے تو کسی قسم کا دباﺅ قبول نہیں کیا.

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان کے ریمارکس کا یہ مطلب نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وہ بھی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں لیکن کسی نے بھی ان کے امور میں مداخلت کرنے کی جرات نہیں کی دورانِ سماعت بنچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب وہ لاہور ہائی کورٹ کے جج رہے تو ان کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں ہوئی. انہوں نے کہا کہ مداخلت کہیں نا کہیں ضرور ہوتی ہے لیکن یہ کہنا کہ ہر جگہ مداخلت ہوتی ہے مناسب نہیں ہے واضح رہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز سماعت کر رہے ہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کی جانب سے خفیہ اداروں کی عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت سے متعلق لکھے گئے خطوط پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اس معاملے سے متعلق ہائی کورٹس کی طرف سے جو تجاویز آئی ہیں وہ صرف تجاویز ہی نہیں بلکہ چارج شیٹ ہے.

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چھے رکنی لارجر بینچ نے اس ازخود نوٹس کی سماعت کی اس چھے رکنی بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ریاست ججز کو نشانہ بنائے تو معاملہ سنگین ہوجاتا ہے انہوں نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ریاست ججز کے خلاف احتجاج کررہی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ گزشتہ پچھتر سال سے یہ ہو رہا ہے کہ عدالتی امور میں مداخلت کی جارہی ہے اور ہائی کورٹس نے اپنی تجاویز میں اس کی تصدیق کی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار کا نام لیے بغیر کہا کہ ان جج صاحب کا ذاتی بائیو ڈیٹا سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا کیونکہ وہ ایک آزاد خیال کے جج ہیں اور وہ دباﺅ میں نہیں آتے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ بہترین موقع ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے لائحہ عمل بنایا جائے.

واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے معاملے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے لکھے گئے خط پر ازخود نوٹس کی سماعت کر رہے ہیںآج اس معاملے پر ہونے والی سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی تجاویز پڑھ کرسنائیں جس پر ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ہر جج کا نقطہ نظر اہم ہے اس معاملے پر بنائی جانے والی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو جج اسلام آباد میں موجود ہیں انہیں عدالت بلاایا جائے.

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سماعت سے قبل ہی ک±چھ چیزوں کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوںان کا کہنا تھا کہ دو ججوں کی وجہ سے فل کورٹ نہیں بلایا جا سکا میں نے نشاندہی کی تھی کہ شاید آئندہ سماعت پر فل کورٹ ہو چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی اپنی مرضی اس عدالت پر مسلط کرنا چاہتا ہے تو وہ بھی مداخلت ہے، مداخلت اندر سے بھی ہو سکتی ہے اور باہر سے بھی چیف جسٹس نے کہا کہ مداخلت حساس ادارو‘ آپ کے ساتھیوں‘ آپ کی فیملی‘سوشل میڈیا اور کہیں سے بھی ہو سکتی ہے.

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا یہ سات رکنی بینچ 26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین کو لکھے گئے ایک چونکا دینے والے خط کے بعد بنایا گیا جس میں ججوں کے رشتہ داروں کے اغوا اور تشدد کے ساتھ ساتھ ان کے گھروں میں خفیہ نگرانی کے ذریعے دباﺅڈالنے کی کوششوں کے بارے میں کہا گیا تھا اس خط پر ججز محسن اختر کیانی، طارق محمود جہانگیری، بابر ستار، سردار اعجاز اسحاق خان، ارباب محمد طاہر اور سمن رفعت امتیاز کے دستخط تھے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل، اطہر من اللہ، مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان پر مشتمل سات رکنی بینچ بدھ سے مقدمے کی سماعت کرے گا.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں