Episode 9 - Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana

قسط نمبر 9 - آ بیل مجھے لتاڑ - ڈاکٹر محسن مگھیانہ

                               تبدیلی آرہی ہے 

”یہ حکومت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں“ چھٹی کے دن گھر میں بیٹھے بہن بھائی آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بھائی نے جب یہ کہا تو بہن بول اُٹھی۔ 
”بھائی! کس فیصلے کی بات کر رہے ہو“ 
”تم نے نہیں سنا؟“ 
”کیا نہیں سنا“ 
”یہی کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے اب اُن جوڑوں کو خصوصی بونس دیا جائے گا…“ 
”بھائی ستاؤ نہیں۔
بتاؤ ناکن جوڑوں کو بونس دیا جائے گا…“ 
”حکومت نے کہا ہے کہ اگر بوڑھے لوگ جوان لڑکیوں سے شادی کریں گے اور…“ 
”اور کیا“ 
”اور بوڑھی عورتیں جوان لڑکوں سے بیاہ کریں گی تو اُنہیں خصوصی بونس دیا جائے گا…“ 
اس ساری بحث کو پاس بیٹھی نانی اماں بڑے غور سے سن رہی تھیں۔

(جاری ہے)

یاد آرہا تھا کہ اللہ بخشے اُن کے شوہر نامدار کو اللہ کو پیارے ہوئے بیس سال بیت چکے ہیں۔ وہ بڑھے دھیان سے اس بحث کو سن رہی تھیں اور چہرے پہ مسکراہٹ کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ حالانکہ اس عمر میں چہرے کے تاثرات پڑھنے میں دوسروں کو خاصی مشکل پیش آتی ہے۔ 
”لیکن بھائی! میں نے تو سنا اپوزیشن والوں نے اس تجویز کی ڈٹ کر مخالفت کی…“
اب تو نانی اماں سے نہ رہا گیا آخر بول اُٹھیں” یہ جانے اپوزیشن والے ہر اچھی تجویز کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔
آخر ان لوگوں کی سوچ میں کب تبدیلی آئے گئی…“ 
دونوں بہن بھائی اپنی بحث چھوڑ کے نانی اماں کو دلاسہ دینے لگے اور کہنے لگے ”آخر ایک نہ ایک دن تبدیلی آکے رہے گی،نانو آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے دن بھی کبھی نہ کبھی پھر ہی جائیں گے…“
ہمارے معاشرتی ماحول میں ہمارے سامنے ہی کئی تبدیلیاں آچکی ہیں۔
بے نظیر بھٹو کے دور میں نازیہ حسن اور ذوہیب حسین نے مل کر گانا کیا گایا تھا۔ اپوزیشن نے ایک طوفان کھڑا کر دیا تھا، پھر جب ٹی وی پر ان کے گیت کے دوران نوجوانوں نے ہاتھ اُٹھا کر اور لہرا کے داددی تھی تو پورے ملک میں اس فحاشی کے خلاف جلوس نکلنے لگ گئے تھے اور اب جو بھی گلوکار اپنی پرفارمنس دکھاتا ہے تو یہ تو لازمی کہتا ہے۔ 
”ہاتھ اوپر… ہاتھ اوپر…“ 
وہی اپوزیشن جب حکومت میں آتی ہے تو تب یہ سب کچھ ہمارے کلچر کا حصہ کہلاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ نوجوانوں کو انجوائے کرنے سے خواہ مخواہ کیوں روکا جائے آخر ہم اتنے بھی تنگ نظر نہیں ہیں۔
 
ایک زمانہ تھا کہ چند سیاسی خاندان کے علاوہ کوئی بھی خواتین کو سیاست میں لانا پسند نہیں کرتا تھا بلکہ برُا سمجھتا تھا پھر ایک دور آیا کہ جب حکومت میں قریباً ۳۰ فیصد نمائندگی خواتین کو سونپنے کا فیصلہ کیا گیا تو تب ہماری سوچ میں نہایت سرعت سے تبدیلی آگئی اور ہر طرف یہی شور وغوغاہونے لگا کہ ہم نہیں چاہتے کہ ملک کی پچاس فیصد آبادی ملک کی ترقی اور اس کی فیصلوں میں حصہ نہ لے، پھر جب عوامی نمائندوں کے انتخاب لڑنے کی بی اے کی شرط لازم ہوگئی تو ہم پہ اپنی سوچوں میں مزید تبدیلی لانا یکدم لازم ہوگیا کہ گھر میں اگر کسی بچی نے بی اے کررکھا ہے اور خواہ اُس نے کالج کے علاوہ دنیا دیکھی ہی نہیں ہے تو یکدم سے اُسے الیکشن میں کھڑا کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ صنف نازک کا ملکی امور میں حصہ لینا جائز ہے۔
جائز تو پہلے بھی تھا مگر اب جب مجبوری ہوئی تو سوچ میں بجلی کی سی تیزی کے ساتھ تبدیلی لانے کو بھی برُانہ سمجھا گیا… 
اب تو خیر تبدیلی کی اخیر ہوئی کھڑی ہے کہ وہ میوزک جسے کبھی بالکل غیر اسلامی سمجھا گیا اب جلسے جلوسوں کا لازمی جزوبن کررہ گیا۔ اسلامی جماعتیں اُسے ترانوں اور قوالیوں کی صورت میں لے آئیں اور دوسری جماعتیں جو یقینا غیر اسلامی تو نہیں لیکن اسلام کے نام پر الیکشن نہیں لڑتیں، اپنے جلسوں میں عوام کا دل ترانوں اور گانوں سے لبھاتی ہیں۔
کچھ تبدیلیاں تو ناگزیر ہوتی ہیں لیکن ہمیشہ اچھی تبدیلیوں کو قبول کرنا چاہیے یہ نہیں کہ اگر مخالف تبدیلی لارہا ہے تو وہ کفر کررہا ہے اور ہم خود لارہے ہیں تو ماشاء اللہ ثواب کا کام کررہے ہیں اب جو لوگ اُن لوگوں کو برُا بھلا کہتے تھے جو گھر میں وی سی آر لے آئے تھے اور پھر ڈش انٹینا گھر وں میں گھسا تھا تو دوسروں کو بے حیائی کا طعنہ دیتے تھے۔اب خود بھی ہنستے ہوں گے کہ اُن کے گھروں میں تو اس سے بھی آگے کی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ 

Chapters / Baab of Aa Bail Mujhe Lataar By Dr Mohsin Mighiana